*
قارئین کرام!صحافت ایک مقدس پیشہ ہے۔اس میں بہت سی شخصیات کی زندگیاں لگ چکی ہیں۔آج بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے صحافت پر عبور ہے۔یہ ایک سمندر ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں اور نہ ہی اس کی گہرائی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن آج کل ہر گلی ہر محلے میں نجانے کتنے لوگ ایسے ہیں کہ جنہیں صحافت سے لگاو ہے۔ کچھ کو اپنے کالے کاروبار کو چھپانے کے لیے اس سے لگاو ہوتا ہے۔ کچھ احباب کو شوقیہ طور پر اس سے لگاو ہے۔کچھ سیاستدانوں کے ٹاوٹ اور چمچے چمچہ گیری کے لیے اس سے لگاو ہوتا ہے۔ کچھ روز قبل ایک سئنیر صحافی سے ملاقات کے دوران میں نے عرض کی کہ آپ کے والد ایک بزرگ صحافی تھے ان کا صحافت میں آج بھی نام ہے۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صحافت کیا ہے۔کیا بھانڈ پن کا نام صحافت ہے۔ کیا وزرا کے چمچوں کی بھی چمچہ گیری کرنا اور ان کا پالشیا بننا صحافت ہے۔ کیا اپنے کالے دھندے کو صاف شفاف ظاہر کرنا ہی صحافت ہے۔قارئین کرام میرے ناسمجھ ذہن کے مطابق اور اپنے سئنیر صحافیوں سے معذرت کرکے کہ جہاں کل شادیوں پر بھانڈ بلائے جاتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ یہ رسم بھی ختم ہو گئی ہے۔ اور آج کل ان کی جگہ ہمارے کچھ صحافیوں،دانشوروں اور دانشوڑوں نے لے لی ہے۔آج بھانڈ بازی کرنے کے لیے صحافیوں کی خدمات لی جاتی ہیں اور ہمارے بھی پیٹی بند بھائی اپنا سازوسامان یعنی مائیک و کیمرہ لے کر اپنی پوری میڈیا ٹیم کے ہمراہ دبنگ انداز میں انٹری مارنا اپنا نصب العین سمجھتے ہیں۔لیکن اگر اسی کا نام صحافت ہے۔ اگر اسی کو پانے کے لیے لوگ اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں تو پھر میرے خیال میں ہم صحافی نہیں ہیں۔ہمارا دور دور تک صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دوسری جانب ہمارے کچھ بے باک صحافی صبح صبح اپنا استرا قینچی او معذرت میرا مطلب کیمرہ اور مائیک اٹھائے کسی نہ کسی سیاستدان کے ڈیرے پر نظر آئیں گے۔یا کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت کے گیت گاگا کر داد لیتے ہیں۔جو کام بھی کرتے ہیں سیاسی ٹاوٹوں کے زیر دست کرتے ہیں۔ان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کی خبر بنانی ہے۔صحافت آزاد یے تبھی تو اگر کوئی خبر کسی سیاستدان کی لاپرواہی کی نشاندہی کرتی ہے تو پھر بھی اس کے ٹاوٹ اور چمچوں کو اچھی نہیں لگتی اور پھر صحافیوں سے برہمی کا اظہار کیا جاتا ہے۔یہ خبر فلاں کے خلاف کیوں لگائی فلاں کے حق میں کیوں لگائی۔فلاں کو مجرم کیوں کہا کیا آپ نہیں جانتے وہ ہمارا لاڈلہ ہے۔صحافی غیر حانبدار ہوتا ہے اور اسے غیر جانبدار ہونا بھی چاہیے۔المختصر یہ کہ صحافت کی عزت آج ہم خود اپنے ہاتھوں سے برباد کررہے ہیں۔چند لوگ بلیک میلنگ کو اپنا شعار بناتے ہیں تو کچھ بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے صحافت کرتے ہیں۔بس کیا کہوں کیا لکھوں۔آج صحافیوں کی رسوائی کے دن دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔کیا دن تھے کہ صحافیوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر افسوس کہ آج صحافت ایک توہین آمیز لفظ بن چکا ہے۔مجھ سے لوگ جب پوچھتے ہیں کہ آج کل کیا کررہے ہو تو میں اگر صحافت کا نام لوں تو لوگ ہنس کے کہتے ہیں یار کوئی کام کرلو۔ میں اپنے بھائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ بے شک جان اللہ کو دینی ہے۔ ان سیاسیوں کے پالشیے بن کر بڑے صحافی تو بن سکتے ییں مگر کوئی اچھے صحافی نہیں بن سکتے۔ ہاں پیسوں کے عوض کوئی اچھا چینل تو مل سکتا ہے مگر عزت نہیں۔اگر انسان کو یہ یقین ہے کہ کسی کی دوستی دشمنی سے کچھ نہیں بگڑنے والا تو پھر ان سیاسیوں کے نیچے کیوں لگنا۔