واشنگٹن (ویب ڈیسک ) امریکی وزارت خارجہ نے الزام لگایا ہے کہ اسلام آباد نے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان سیاسی مفاہمت کی حمایت کا عہد کیا مگر افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں میں آمد و رفت پر پابندی نہیں لگائی جو افغانستان میں امریکی
اور افغان فورسز کو دھمکا رہے ہیں۔ سال 2017 کیلئے انسداد دہشت گردی اور پر تشدد انتہا پسندی سے نمٹنے کی سالانہ ملکی رپورٹ جاری کرتے ہوئے امریکی وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ افغانستان نے افغان طالبان بشمول حقانی نیٹ ورک اور دیگر باغی اور دہشت گرد گروہوں کی جانب سے شدید اور مربوط حملوں کا مسلسل سامنے کیا ہے۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ ان حملوں میں سے متعدد کا منصوبہ پاکستان میں ان کی محفوظ پناہ گاہوں میں بنایا گیا۔ رپورٹ کے مطابق حالانکہ پاکستان میں 2014 سے پہلے کی نسبت دہشت گردی سے متعلق تشدد میں کمی آئی ہے، جب پاکستان نے فاٹا میں فوجی کارروائیوں کو آغاز کیا تھا تو ملک بھر میں معنی خیز انداز میں دہشت گردانہ حملے بڑھ گئے تھے، خاص کر سویلین اور سرکاری اہداف کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی فوج اور سیکورٹی فورسز نے ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جنہوں نے ملک کے اندر حملے کئے جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان۔ رپورٹ میں اس بات کی تعریف بھی کی گئی کہ فاٹا میں اس طرح کی کارروائیوں سے خطے میں القاعدہ کی موجودگی اور اس گروہ کی آزادانہ نقل و حرکت کو بھی نقصان پہنچا۔
تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کی عالمی قیادت کی باقیات کے ساتھ ساتھ انڈین سب کانٹیننٹ میں اس سے وابستہ علاقائی القاعدہ (اے کیو آئی ایس) نے خطے میں دور دراز کے مقامات پر نقل و حرکت جاری رکھی جن سے محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر فائدہ اٹھایا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ افغان قومی دفاع اور سیکورٹی فورسز نے افغانستان میں سیکورٹی کیلئے مکمل ذمہ داری اٹھائے رکھی۔ اے این ڈی ایس ایف اور اتحادی فورسز نے دہشت گرد عناصر بشمول خطے میں آئی ایس آئی ایس کی باقاعدہ شاخ ، خراسان صوبے کی اسلامک اسٹیٹس (آئی ایس آئی ایس کے) کے خلاف پورے افغانستان میں سخت کارروائی کی۔ جنوبی ایشیا کے حصے کے حوالے سے رپورٹ میں ایک بار پھر پاکستان پر الزام لگایا گیا کہ پاکستان نے 2017 میں لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے گروہوں کے خلاف ناکافی کارروائی کی جو ملک میں نقل و حرکت، تربیت، انتظام اور فنڈ اکٹھے کرتے رہے۔ پاکستان نے جنوری 2017 میں لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ تنظیم کے قائد حافظ سعید کو نظر بند کیا لیکن پاکستانی عدالت نے نومبر 2017 میں حافظ سعید کی نظر بندی ختم کرکے رہا کرنے کا حکم دیا۔ رپورٹ میں دہشت گردی کی مالی معاو نت سے نمٹنے کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ
پاکستان منی لانڈرنگ پر ایشیا پیسفک گروپ کا رکن ہے جو فنانشل ٹاسک فورس طرز کی علاقائی تنظیم ہے۔ رپورٹ کے مطابق پا کستا ن دہشت گردی کی مالی معاونت کو اے ٹی اے کے ذریعے غیر قانونی کہتا ہے مگر ان پر مساوی عمل درآمد نہیں کرتا۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ بھارت کو پاکستان میں قائم دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ساتھ قبائلی اور ماؤسٹ باغیوں کے مسلسل حملوں کا سامنا ہے۔ بھارتی حکام نے پاکستان پر جموں اور کشمیر میں سرحد پار سے حملوں کا الزام لگایا۔ سال 2017 سے بھارتی حکومت نے دسمبر میں دہلی میں ہونے والے پہلے مذاکرات کے آغاز کے ساتھ امریکا سے انسداد دہشت گردی میں تعاون اور اطلاعات کے تبادلوں کو بڑھانا چاہا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا کے درمیان انسداد دہشت گردی کا تعاون 2017 میں مزید بڑھ گیا۔ دونوں ممالک نے القاعدہ، آئی ایس آئی ایس، جیش محمد، لشکر طیبہ اور ڈی کمپنی سمیت دہشت گردی کی دھمکیوں کے خلاف تعاون کو مضبوط بنانے کا عزم کیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی حکومت اور فوج نے دہشت گردانہ حملوں کو ناکام بنانے اور ریاست مخالف عناصر کو ختم کرنے کی اعلیٰ سطح کی کوششیں جاری رکھیں ۔