لاہور: پاکستان سٹیل مل جو کبھی پاکستان کا روشن باب ہوا کرتا تھا آج اس کے ساتھ ساتھ ملک پاکستان بھی سسک رہا ہے۔ یہ وہ اونٹ بن چکا ہے جو پانی نہ ملنے کی وجہ سے بلبلا رہا اور ہر مہینے کروڑوں روپے اس میں جھونکے جارہے مگر اس سے نکل کچھ نہیں رہا۔یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایک منافع بخش انڈسٹری میں ہمارے حکمرانوں نے ایسے کیا کارنامے سرانجام دیے کہ وہ خسارے میں چلی گئی۔خسارہ بھی ایسا کہ دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی اس پر قابو نہیں پایا جا رہا۔اب تبدیلی حکومت کے تبدیلی وزرا کے بعد حفیظ شیخ صاحب نے وزرات خزانہ کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو اس نے بھی آتے ہی سٹیل مل جیسے سفید ہاتھی سے دو دو ہاتھ کرنے کی ٹھان لی ہے۔
گزشتہ روزکی آفیشل میٹنگ میں جو بات ڈسکس کی گئی اس کے حوالے سے سینئر صحافی رﺅف کلاسرا نے اپنے پروگرام میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ میٹنگ میں سٹیل مل کی نجکاری کی بات کی گئی ہے۔شاید حکومت یہ چاہ رہی ہے کہ ہمارے ہر مہینے کروڑوں روپے سٹیل مل میں تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مدمیں چلے جاتے ہیں تو کیوں نہ اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کر لی جائے۔اس حوالے سے چھے مختلف کمپنیوں نے اپنا انٹرسٹ شو کیا ہے کہ وہ پاکستان کی سٹیل مل کو چلانا چاہتے ہیں جن میں سب سے نمایاں روس اور چین کی کمپنیاں ہیں جو ہر قیمت پر پاکستان سٹیل مل کو خریدنے کے خواہاں ہیں۔خریدنے سے مراد یہ ہے کہ پاکستان حکومت کے ساتھ ان کی پارٹنر شپ ہو گی اور یوں سٹیل مل کا کاروبار چلے گا۔اس حوالے سے حفیظ شیخ صاحب خاموش رہے ا ور انہوں نے میٹنگ میں زیادہ بات نہیں کی شاید اس حوالے سے انہوں نے وزیراعظم عمران خان صاحب کو اعتماد میں لینا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان سٹیل مل کا مستقبل کیا بنتا ہے۔کیا حکومت پاکستان خود کچھ کرتے ہوئے اسے چلانے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر نجکاری کے تحت پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے اسے نفع مند بنانے کا منصوبہ کارآمد ثابت ہو گا،اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا۔