لاہور: ایک وقت تھا جب فیشن ڈیزائنرز ایک خاص کلاس کے لئے ملبوسات تیار کیا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ ہر قسم کا طبقہ ان کے ملبوسات زیب تن کرنے کا خواہاں ہے تو ایسے میں انہوں نے موسمی کلیشنز کے ساتھ مناسب قیمتوں پر ملبوسات متعارف کروانا شروع کر دئیے نامورخاتون صحافی عنبرین فاطمہ روزنامہ نوائے وقت کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھربھی فیشن ڈیزائنرز کے اعلی کوالٹی کے ملبوسات پہننے کی تشنگی کہیں نہ کہیں متوسط طبقے کے دل میں رہتی ہے۔سیزن میں جو جوڑے دس ہزار کے ملتے ہیں وہ سیل لگنے پر تیس ،چالیس اور پچاس فیصد تک ڈسکائونٹ میں میسر ہوتے ہیں ۔شہر میں اس وقت جہاں جہاں بھی ڈیزائنرز وئیر پر سیل لگی ہوئی ہے وہاںخواتین کا رش دیدنی ہے بلکہ یوںکہنا چاہیے کہ وہاں پیر دھرنے کے لئے بھی جگہ نہیں ہوتی ۔خواتین ایک دوسرے کے ہاتھ سے جوڑے کھینچ رہی ہوتی ہیں لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی ذہن میں ابھرتا ہے کہ مہنگے داموں کے جوڑے اس قدر رعایت پر کیوں سیل میں فروخت کئے جاتے ہیں؟ اس کا بہت ہی سادہ سا جواب ہے کہ فیشن کی دلدادہ خواتین ایک سیزن کے بعد ڈیزائنر وئیر نہیں پہنتی اورایک سال کے بعد یعنی اگلے سیزن میں تو پچھلے سیزن کی کلیکشن کے جوڑے چاہے کتنے ہی سستے داموں کیوں نہ دستیاب ہوں زیب تن نہیں کرتیں اس لئے ڈیزائنرز کومجبوراً اپنا مال اسی سیزن میں نکالنے کیلئے سیل لگانی پڑتی ہے تاکہ وہ اگلے سیزن کے لئے کلیکشن کی تیاری کر سکیں ۔اس کے علاوہ کلیکشن تیار کرنے والے سیزن کا بچا ہوا مال کبھی بھی اپنے گوداموں میں نہیں رکھتے۔موضوع کی مناسبت سے ہم نے معروف فیشن ڈیزائنر ’’بی جی ‘‘ سے بات کی انہوں نے کہا کہ میں خود فیشن ڈیزائنرز ہوں اور بہت اچھی طرح سمجھتی ہوں کہ جن کپڑوں پر سیل لگائی جاتی ہے آیا وہ سیل کے لئے ہی بنے ہوتے ہیں یا واقعتا مہنگے داموں کے ملبوسات پر رعایت دی جاتی ہے ۔ میرے حساب سے جن ملبوسات پر سیل لگتی ہے ان میںسے زیادہ تر تو بنے ہی سیل کے لئے ہوتے ہیں ۔دوسرا سیل لگانے کی بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ سیزن آئوٹ ہونے کے بعد کلیکشن کی وہ اہمیت نہیں رہتی جو متعارف کرواتے وقت ہوتی ہے اس لئے کوشش کی جاتی ہے سیزن کے آئوٹ ہوتے ہی بچ جانے والی کلیکشن پر سیل لگا دی جائے ۔اس کو مال بیچنے اور سٹور خالی کرنے کا جدید طریقہ بھی کہا جا سکتا ہے ویسے بھی متوسط طبقے کی دلچپسی سیل میں خاصی زیادہ ہوتی ہے اور اسی چیز کا بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔دوسرا یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر لیبر کے پاس سیزن کی کلیکشن بنانے کے بعد کوئی کام نہ ہو تو تو ان سے سیل کے لئے پراڈکٹ بنوالی جاتی ہے اس طرح سیزن کی کلیکشن کے بعد سیل سے بھی فائدہ حاصل کیا جا تا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ باہر کے ممالک میں جو کرسمس یا مدرز ڈے کے لئے سیلیں لگتی ہیں وہ حقیقی سیلیں ہوتی ہیں ان میں فروخت کی جانے والی پراڈکٹس معیاری ہوتی ہیں ہمارے ہاں تو سب تو نہیں لیکن کچھ لوگ نکما مال سیل میں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن لوگ پیسے کم دیکھ کر دھڑا دھڑ خریداری کرلیتے ہیں ۔بی جی کا کہنا تھا کہ آج سے بیس تیس سال پہلے تک سیل کا طریقہ کا ر یہ ہوتاتھا شاپ میں پورے پیسوں پر کپڑے دستیاب ہوتے تھے اور دکان کے باہر پھٹوں پر جو کپڑے پڑے ہوتے تھے وہ اصل میں سیل کے کپڑے ہوتے تھے جن کی قیمت نہایت ہی کم ہوتھی ۔ پہلے تو لان ہوتی تھی یا ویل لیکن اب تو سردی گرمی میں ہر قسم کا کپڑا بنایا جاتا ہے شفون کو گرم کپڑوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے کہیں بازوئوں کے لئے اس کا استعمال ہوتا ہے تو کہیں گلے کی خوبصورتی کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے ۔بی جی کا مزید کہنا تھا کہ اب ٹیکسٹائل والے ڈیزائنرز کو ہائر کر کے کام کر رہے ہیں حالانکہ جو ڈیزائنر ہوتے ہیں وہ جو بھی کام کرتے ہیں وہ ان کا اپنا ہوتا ہے اور مارکیٹ میں کسی اور کے پاس نہ وہ ڈیزائن ہوتا ہے نہ ہی آئیڈیا۔لیکن اب ڈیزائنرز اور ٹیکسٹائل والے ٹیم ورک کے طور پر کام کررہے ہیں ۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھلے وقتوں میں پورے سیزن میں پانچ چھ جوڑے استعمال ہوتے تھے اور اس کے بعد اگلے سیزن میں ہی نئے کپڑے لئے جاتے تھے ہاں اگر اس دوران کوئی شادی بیاہ کی تقریب آجاتی تو کپڑے بنانے پڑتے وہ الگ بات ہے لیکن اب ایسا نہیں ہے اب سیزن میں بھی خواتین کپڑے بناتی ہیں اور سیل لگنے پر بھی زورو شور سے خریداری کرتی ہیں ۔بی جی کا فیشن انڈسٹری کے حوالے سے کہنا تھا کہ ہماری فیشن انڈسٹری صحیح سمت میں چل تو رہی ہے لیکن کام یکسانیت کا شکار نظر آتا ہے ہر کوئی ایک جیسا ہی کام کر رہا ہے حالانکہ ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک کام کرنے والا ڈیزائنر ہے نوے کی دہائی میں جو ڈیزائنرز آئے ان کا ٹارگٹ ملکی اور بین الاقوامی مارکیٹ دونوں تھیں لیکن آج میں دیکھ رہی ہوں کہ لوکل لیول پر ملبوسات اور کام کی تشہیر ہو رہی ہے اپنے کام اور فیشن انڈسٹری کو بین الاقوامی لیول پر لیجانے کے لئے سنجیدگی نظر نہیں آرہی اور یہ چیز فیشن انڈسٹری کو نقصان پہنچا رہی ہے یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہر کوئی ایک دوسرے کا آئیڈیا دیکھ کر اس میں اپنے سٹائل تڑکہ لگا کر جوڑے بناکر فروخت کر رہا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے ۔میںنئے ڈیزائنرز سے یہی کہنا چاہوں گی کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو منوائیں ،کاپی کرنے پر یقین نہ رکھیں بلکہ تخلیق کرنے کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائیں پچھلے کچھ برسوں میں کافی نئے لوگ فیشن انڈسٹری کا حصہ بنے ان سے ہمیں اور لوگوں کو کافی امیدیں وابستہ ہیں وہ نیا کام کریں اور اپنے کام کو بین الاقوامی سطح پر جا کر پرموٹ کریں اور پاکستان کا نام روشن کریں