وہ رو رہی تھی، بے تحاشا غمگین اور دل دکھا دینے والا لہجہ تھا۔ ’’میڈم ایک بار میری بات تو سن لیں۔ پلیز مجھے مایوس نہ کریں، ہم بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں، میری عرض سن لیجیے۔ میری ماں بلڈ کینسر کی مریضہ ہیں، خدارا! میری بات سن لیجیے۔‘‘ بلڈ کینسر کا سن کر میں سن سی ہو گئی۔ پھر وہ بولتی گئی اور میں سنتی گئی، بعض جگہ میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔
یہ ہمارے قارئین اور دیگر لوگ جو مشکلات کا شکار ہیں، ہم کالم نگاروں سے نہ جانے کیوں بہت سی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ کاش کہ ہم ان کی مشکلات دور کر سکتے اور ان کے کسی کام آ سکتے۔ یہ بشریٰ تھی جو ایک ہاؤس وائف ہے، ایکسپریس کی پرانی قاری۔ میں ان سے کبھی نہیں ملی، نہ ان کو جانتی ہوں، لیکن بشریٰ کا لہجہ اور آنسوؤں میں ڈوبی آواز اس کی سچائی کی گواہ تھی۔ میرے اندر کچھ ٹوٹ سا گیا، وہ گھر آنے کو بھی تیار تھی، لیکن میں نے تمام روداد سن کر اس سے کہا کہ وہ قارئین کے نام ایک خط لکھ دے۔
اس نے رومن اردو میں تفصیلی خط لکھا اور مجھے بھیج دیا جسے میں قارئین کی نذر کر رہی ہوں۔ فیصلہ آپ کا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہوں گی کہ جہاں اس ملک میں ہزاروں بہروپیے اور احسان فراموش لوگ موجود ہیں جو مطلب نکل جانے کے بعد پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے وہیں کچھ لوگوں کی سچائی صرف ان کے لہجے میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ بشریٰ کا شمار بھی انھی لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنی ماں کے لیے پریشان ہیں۔ خط پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے۔
خاص طور پر وہ لوگ ضرور توجہ دیں جن کی ٹھیک ٹھاک مدد ایکسپریس کے اور میرے کالم کے ذریعے ہوئی۔ کئی گھرانے ایسے بھی ہیں جو آج تک امداد حاصل کر رہے ہیں، لیکن یہ مدد بھی صدقہ جاریہ ہے۔ جن لوگوں کی مدد میرے کالم کے ذریعے ہوئی اور ہو رہی ہے ان کا فرض ہے کہ وہ اپنا حصہ بشریٰ کی ماں کے قرض کی ادائیگی میں ضرور ڈالیں۔
محترم قارئین!
میرا نام بشریٰ ہے۔ میں ایک ہاؤس وائف ہوں، بہت عرصے سے دیکھ رہی ہوں کہ محترمہ رئیس فاطمہ کے کالم اور ایکسپریس اخبارکے ذریعے بہت سے ایسے لوگوں کی مدد ہوئی جو سفید پوش تھے اور کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے تھے۔ اسی وجہ سے میری بھی ہمت ہو گئی۔ ہم چار بہنیں اور ایک بھائی ہیں۔ والدین نے نہایت نامساعد حالات میں ہماری پرورش کی۔ والد کی نوکری بہت معمولی تھی۔ ہم بہنیں اور والدہ گھر پر بچوں کو ٹیوشن پڑھاتے تھے۔ اسی کسمپرسی میں ہم بہنوں کی شادیاں ہو گئیں۔
اچانک انکشاف ہوا کہ ہمارا اکلوتا بھائی آنتوں کے مرض میں مبتلا ہے۔ پھر والدہ بیمار رہنے لگیں، وہ دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی تھیں، ڈاکٹروں نے بلڈکینسرکی خبر سنائی۔ یہ کتنی ہولناک بیماری ہے کہ سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ والدہ نے ادھر ادھر سے قرضہ لیا اور اپنا علاج کراتی رہیں۔ پھر یوں ہوا کہ قرضہ بہت بڑھ گیا۔ دینے والوں نے ہاتھ کھینچ لیا کہ وہ بھی کوئی لکھ پتی تو نہ تھے۔ امی کا علاج بند ہو گیا۔ کیونکہ والدہ قرض کی دلدل میں ڈوب چکی ہیں۔ قرض دار بار بار گھر پہ آ کر تقاضا کرتے ہیں۔ صورتحال اتنی ابتر اور ہولناک ہے کہ قارئین اندازہ نہیں کر سکتے۔
ایکسپریس کے مخیر قارئین سے درخواست ہے کہ ہماری والدہ کی مدد کریں تا کہ وہ قرضہ ادا کر سکیں۔ میں اپنی والدہ کے گھر کا پتہ بھی لکھ رہی ہوں اور بھائی کا موبائل نمبر بھی۔ ساتھ ہی بینک اکاؤنٹ نمبر بھی دے رہی ہوں۔ مخیر اور دردمند خواتین و حضرات جس طرح چاہیں تحقیق کر سکتے ہیں۔ جو کچھ بتایا ہے مصیبت اس سے کہیں بڑی ہے۔ گھر کا پتہ A-159، کورنگی نمبر 6، کراچی (نزد گورنمنٹ بوائز کالج)۔ موبائل نمبر 0323-3453161۔ اکاؤنٹ نمبر ایچ بی ایل-0091079004803، کورنگی روڈ فیز 2، ڈی ایچ اے۔
مدد کی طالب
بشریٰ
قارئین کرام! میں اتنا ضرور کہوں گی کہ جو کچھ ہو سکے وہ کیجیے۔ نیکی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔
قیسی رام پوری کے نواسے عادل حسن نے مجھے جب افسانوی مجموعہ ’’غبار‘‘ پہنچایا تو مجھے بہت حیرت ہوئی اور خوشی بھی کہ ہمارے سینئر لکھنے والوں کی تصانیف ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں قیسی رام پوری کے ناول بہت پڑھے، لیکن میرے علم میں یہ نہیں تھا کہ وہ افسانے بھی لکھتے تھے۔ قیسی صاحب کا انتقال 10 فروری 1974ء کو کراچی میں ہوا اور وہ یاسین آباد کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ ’’غبار‘‘ پہلی مرتبہ 1944ء میں اور دوسری مرتبہ 1945ء میں شایع ہوا۔
یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ اب 2017ء میں یہ تیسری بار شایع ہوا ہے۔ اس میں کل 14 افسانے ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ قیسی صاحب جن کا اصل نام خلیل الزماں خان تھا فکری طور پر سرسید اسکول سے متاثر تھے۔ کیونکہ ان کے افسانوں اور ناولوں میں نصیحت آمیز مواد غالب ہے۔ وہ کہیں نہ کہیں اصلاح پہ ضرور زور دیتے ہیں۔
قیسی رام پوری کا سن پیدائش 1904ء ہے۔ قیسی صاحب اردو افسانے کے عہد زریں کے لکھنے والوں میں شامل ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس دورکے بیشتر لکھنے والوں کی تخلیقات اب ناپید ہیں۔ قیسی صاحب کے ہم عصروں میں نسیم حجازی، خان محبوب طرزی، ایم اسلم، رئیس احمد جعفری، رشید اختر ندوی کے علاوہ منشی تیرتھ رام فیروز پوری کا نام بھی اپنی انفرادیت کی وجہ سے شامل ہے۔ تیرتھ رام کا بڑا احسان ہے کہ انھوں نے انگریزی اور فرانسیسی ادب بالخصوص جاسوسی ادب کے تراجم سے لوگوں کو روشناس کرایا۔
قیسی رام پوری قیام پاکستان سے قبل ہی ادبی دنیا میں اپنی شناخت بنا چکے تھے۔ ان کے بیشتر افسانے، شاہد احمد دہلوی کے ’’ساقی‘‘ میں چھپ چکے تھے۔ جن کی تعداد چالیس سے زیادہ ہے۔ پروفیسر سحر انصاری ’’غبار‘‘ کے افسانوں کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ’’قیسی رام پوری کے افسانوں میں انسان شناسی کے گوشے نمایاں نظر آتے ہیں۔ ان کے کردار خواہ کسی بھی طبقے سے ہوں، اپنی سوچ اورگفتگو میں زندگی کے عکاس نظرآتے ہیں۔ قیسی رام پوری نے مدلل انداز میں ادبی لب و لہجے کے ساتھ خیالات کی عکاسی کی ہے۔ ان کے افسانے تفریح طبع کے لیے نہیں بلکہ زندگی کی صحیح تفہیم کا رخ رکھتے ہیں۔ ان کے فن میں جو مقصدیت ہے وہی ان کے فن کی تازگی کی دلیل ہے۔‘‘
’’غبار‘‘ کو لاہور کے ایک نیک نام پبلشر اظہار سنز نے شایع کیا ہے۔ اس ادارے کے مالک انجم ایک صاحب ذوق اور علم دوست انسان ہیں۔ امید ہے کہ وہ ادیب جو قصہ پارینہ بن گئے اظہار سنز ان کی تصانیف کی طرف بھی توجہ دے گا۔