لاہور (ویب ڈیسک) پسماندہ معاشروں میں سو بُرائیاں پائی جاتی ہیں‘ جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں‘ وہ چوری چکاری اور لوٹ مار سے گریز نہیں کرتے۔ بات بات پر جذبات کی رَو میں بہتے ہوئے بے لگام ہو جانا‘ ایسے لوگوں کی نفسی ساخت کا حصہ بن جاتا ہے۔
نامور کالم نگار ایم ابراہیم خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔بات بات پر سیخ پا ہونا‘ لڑنا جھگڑنا پس ماندہ معاشروں میں عام سی بات ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا کا معاشرہ مجموعی طور پر ایسا ہی ہے۔ اخبارات میں جرائم سے متعلق خبریں پڑھیے تو محسوس ہوگا کہ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش مجموعی طور پر ایک ہی دریا میں بہہ رہے ہیں۔ سوچ کی پستی اور اخلاق کی گراوٹ تینوں ممالک میں ایک ہی سطح پر دکھائی دے رہی ہے۔ چوری چکاری اور لوٹ مار کے علاوہ کرپشن بھی تینوں ممالک میں عمومی سی بات ہوکر رہ گئی ہے۔ جھوٹ بولنا‘ وقت کی پابندی نہ کرنا‘ وقت کو سوچے سمجھے بغیر ضائع کرنا‘ چادر سے باہر پاؤں پھیلانا‘ غیر ضروری باتوں کو اہم سمجھنا‘ اہم امور کو درخورِ اعتناء نہ سمجھنا‘ زندگی کسی مقصد کے بغیر گزارانا‘ غیر اخلاقی اطوار اختیار کرنا اور دوسری بہت سی بُرائیاں‘ خامیاں اور کمزوریاں زندگی کا حصہ بن بیٹھی ہیں۔ غیر اخلاقی اطوار کا تیزی سے پنپتے جانا ‘اب انتہائی خطرناک شکل اختیار کرچکا ہے۔ جنسی بے راہ روی عام ہوتی جارہی ہے۔ ویسے تو خیر تینوں ہی معاشرے اس حوالے سے بہت بگڑے ہوئے ہیں ‘تاہم بھارت بازی لے گیا ہے۔ چند برس کے دوران جنسی بے راہ روی نے ایسی شکل اختیار کی ہے کہ
نفسی اور عمرانی علوم کے ماہرین بھی شدید الجھن سے دوچار ہیں کہ کس بات کو کیا سمجھیں‘ کیا توجیہہ کریں۔ جنسی بے راہ روی نے بعض حوالوں سے انتہائی پیچیدہ صورت اختیار کرکے پورے معاشرے کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگادیا ہے۔ زیادتی کے واقعات بڑے پیمانے پر اور تواتر سے ہو رہے ہیں‘ جس کے باعث سول سوسائٹی کی وقعت داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ مذہبی تعلیمات اور ثقافتی و تہذیبی اقدار کے مثبت اثرات تیزی سے گھٹ رہے ہیں۔ بھارتی معاشرہ مجموعی طور پر مادر پدر آزادی کی دلدل میں دھنستا دکھائی دے رہا ہے۔ سنگھ پریوار‘ یعنی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘ وشو ہندو پریشد‘ بجرنگ دل‘ بھارتیہ جنتا پارٹی‘ شیو سینا اور دیگر انتہا پسند گروہوں نے چند برس کے دوران مذہبیت کو ہوا دی ہے‘ مذہب کو پیچھے دھکیل دیا ہے۔ لوگ مذہب کے نام پر جنونی تو ہوگئے ہیں‘ مگر مذہبی تعلیمات پر عمل کے معاملے میں زیرو پوائنٹ پر کھڑے ہیں۔ یہ بات بہت حیرت انگیز لگتی ہے کہ معاشرے کو مذہب کی طرف دھکیلنے کے نام پر مذہب ہی سے بہت دور لے جایا جارہا ہے۔ جذبات بھڑکاکر سیاسی فوائد بٹورے جارہے ہیں۔ ملک بھر میں خواتین سے زیادتی کے واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد بتاتی ہے کہ لوگ مذہبیت کو تو گلے لگارہے ہیں‘
مذہب سے ہم کنار ہونے کو تیار نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شدید بے راہ روی عام ہوتی جارہی ہے۔ بے حیائی نے رجحان اور فیشن کا درجہ پالیا ہے۔ عورت کی عصمت کے تحفظ کے حوالے سے اپنی ذمہ داری کا احساس رکھنے والے خال خال ہیں۔ مخلوط تعلیم‘ بے پردگی‘ زنانہ لباس کے حوالے سے انتہائی لاپرائی اور بے نیازی نے مل کر بھارتی معاشرے کو جنسی رویّوں کے حوالے سے انتہا کی طرف دھکیل دیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں نئی نسل حد سے گزرتی دکھائی دے رہی ہے۔ چند ماہ قبل دہرادون کے ایک بورڈنگ سکول میں ایک لڑکی سے اجتماعی زیادتی کی گئی۔ جب سکول انتظامیہ کو لڑکی کی ”حالت‘‘ کا علم ہوا‘ تو اُس نے اسقاطِ حمل کا مشورہ دیا‘ جس کے بعد معاملہ پولیس تک پہنچا! بھارت کا معاملہ یہ ہے کہ مغرب کی تقلید کرتے ہوئے جدید ترین موضوعات پر دی جانے والی تعلیم کا تو وہاں غلغلہ ہے ‘مگر معیاری اخلاقی تربیت پر برائے نام توجہ دی جارہی ہے۔ جدید علوم حاصل کرنے اور زمانے کے مزاج کے مطابق بول چال کی انگریزی میں مہارت کو زندگی کی معراج سمجھ لیا گیا ہے۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں ایم بی اے کریں‘ میڈیا سٹڈیز یا آئی ٹی کی اعلیٰ ڈگری لیں اور تابناک مستقبل کے لیے امریکا و یورپ کا رخ کریں۔
نئی نسل کے اطوار درست کرنے اور اُن میں اخلاقی اقدار کے بیج بونے پر توجہ دینے سے یکسر گریز کیا جارہا ہے۔ روحانی بالیدگی نام کو نہیں ملتی۔ بیشتر معاملات میں معاشرے کا کھوکھلا پن نمایاں ہے۔ بھارتی معاشرے میں اخلاقی گراوٹ انتہائی درجے میں ہے۔ خاندانی نظام کہنے کو تو برقرار ہے ‘مگر اُس کے خاطر خواہ نتائج دکھائی نہیں دے رہے۔ خاندانی نظام انسان کو بہتر زندگی کی طرف مائل کرنے کے لیے ہوتا ہے‘ مگر لگتا ہے بھارت میں خاندانی نظام کا یہ مقصد ایک طرف ہٹاکر صرف معاشی پہلو کو ذہن نشین رکھا جارہا ہے‘ یعنی تین چار بھائی بیوی بچوں سمیت مل جل کر صرف اس لیے رہتے ہیں کہ الگ رہنے کی صورت میں پڑنے والا اضافی معاشی بوجھ ٹال سکیں۔ بھارت کے ہندو اب تک خاندانی نظام کو گلے لگائے ہوئے ہیں ‘مگر یہ نظام نئی نسل کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کے معاملے میں شدید ناکامی سے دوچار ہے۔ ایک گھر میں ساتھ رہنے پر بھی نئی نسل کو بہتر اخلاقی اقدار کا حامل بنانے میں بزرگ تاحال کامیاب نہیں ہوسکے۔ اپنی خرابیوں کو دور کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے ہندو اکثریتی معاشرہ اقلیتوں کو نشانہ بنانے میں زیادہ دلچسپی لیتا رہا ہے۔ انتہا پسند ہندو قائدین قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھنے پر یقین رکھتے ہیں‘ تاکہ اصل مسائل پر پردہ پڑا رہے۔
میڈیا کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرکے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ بھارت میں جتنی بھی خرابیاں ہیں ‘وہ اقلیتوں کی پیدا کردہ ہیں اور ہندو اکثریت مجموعی طور پر محض امن پسند اور پُرامن ہی نہیں‘ بلکہ اخلاقی اعتبار سے بھی قابلِ تقلید ہے! مسلمانوں اور سِکھوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کردیا گیا ہے۔ ہندو اکثریت اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی کہ آج بھی کروڑوں افراد کو نچلے درجے کا ہندو قرار دے کر دیوار سے لگایا جارہا ہے اور اس عمل کے نتیجے میں اُن میں شدید اشتعال پھیل رہا ہے۔ اگر بھارت میں رونما ہونے والے واقعات اور بڑھتی ہوئی بے راہ روی کے تناظر میں جائزہ لیا جائے‘ تو آج کا پاکستانی معاشرہ بھی کسی اعتبار سے اعلیٰ نمونہ نہیں۔ ہمارے ہاں بھی میڈیا کے ذریعے بہت سے اخلاقی عیوب پھیلے ہیں۔ یہاں بھی اخلاقی اقدار ابتری سے دوچار ہیں۔ نئی نسل میں بہتر زندگی کے حوالے سے ذمہ داری کا احساس برائے نام رہ گیا ہے۔ میڈیا کی مدد سے قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا جاچکا ہے۔ تمام غیر متعلق باتیں زندگی کے بنیادی مسائل کے درجے میں رکھ کر سامنے لائی جاچکی ہیں۔ انتہائے ستم یہ ہے کہ پڑوس کی طرح ہمارے ہاں بھی ایسا ماحول پروان چڑھایا جارہا ہے‘ جس میں گناہ کو گناہ سمجھنے سے گریز کیا جائے۔ لوگ ہر بُرائی کو یوں اپنا رہے ہیں گویا وہ سِرے سے کوئی بُرائی ہی نہ ہو۔ اخلاقی اور روحانی دیوالیہ پن کو مکمل طور پر یقینی بنانے کی بھرپور کوششیں پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ اخلاقی زوال تو اور بہت سے معاملات میں بھی واقع ہوتا رہا ہے‘ مگر جنسی اُمور میں شرمناک حد تک غیر متوازن رویّہ سب سے بڑھ کر ہے ‘جو پورے معاشرے کی لُٹیا ڈبونے پر تُلا ہوا ہے۔ ہوس کا بازار سا گرم ہے اور اس میں لین دین کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی جارہی ہے؛ اگر ہم غیرت اور ضمیر کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہے ہیں ‘تو ہوس کے بازار کی رونقوں کو ماند پڑنا ہی چاہیے۔