لاہور ;“ایک دن میں اپنے پوتے سے کہ رہا تھا کہ ” بلال میاں ، میں اپنے الله کو مان کے مرنا چاہتا ہوں وہ کہنے لگا کہ ” بابا تم تو بہت اچھے آدمی ہو “میں نے کہا نہیں ” مجھے میرے ابّا جی نہ کہا تھا کہ ایک الله ہوتا ہے – میں نے یہ بات
وا مان لی اور الله کوئی ماننے لگا – میں الله کو خود سے ڈائریکٹ ماننا چاہتا ہوں – بس خدا پر یقین کی ضرورت ہے ، میرے ابّا جی بتایا کرتے تھے کہ ایک دن ان کے ہاں دفتر میں کام کرنے والے ملازملے ملازم کی تنخواہ چوری ہو گئی تو سب نے کہا کہ یار بڑا افسوس ہے – تو وہ کہنے لگے کہ ” خدا کا شکر ہے نوکری تو ہے “ایک ماہ بعد خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کی نوکری بھی چلی گئی لوگوں اور ابا جی نے ان سے افسوس کیا تو کہنے لگے جی ” خدا نے اپنا گھر دیا ہے ، اندر بیٹھ کر اچار روٹی کھالیں گے – الله کا فضل ہے – پرواہ کی کوئی بات نہیں یہ خدا کی طاقت تھی مقدمے بازی میں کچھ عرصے بعد اس کا گھر بھی فروخت ہو گیا وہ پھر بھی کہنے لگا کہ ” فکر نہیں میرے ساتھ میری بیوی ہے – یہ بیالیس سال کا ساتھ ہے بیوی فوت ہوئی تو اس نے کہا کہ ” کوئی بات نہیں میں تو زندہ سلامت ہوں – تندرست ہوںوہ شوگر کا مریض تھا اس کی ایک ٹانگ کٹ گئی – میرے والد نے کہا کہ ” بہت برا ہوا اس نے کہا ڈاکٹر صاحب ” ایک ٹانگ تو ہے بیماری بڑھنے کے بعد اس کی دوسری ٹانگ بھی کٹ میرے والد بتاتے ہیں کہ جب وہ فوت ہوا تو اس نے اپنے بہو سے کہا کہ ” بیٹا کمال کا بستر ہجس پر میں فوت ہورہا ہوں – کیا خوبصورتی سے اس چارپائی کی پائینتی کسی ہوئی ہے – مزہ آ رہا ہے ایسی طاقت اور قناعت پسندی کی ضرورت ہے ایسی طاقت اس وجہ سے حاصل ہوتی ہے کہ وہ دوسروں کے لیے اپنا کندھا ، بازو یا صرف کان کھلا رکھتے ہیں اور لوگوں کو سہارا مہیا کرتے ہیںالله تعالیٰ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے – آمین از اشفاق احمد زاویہ ٣ دو بول محبّت کے صفحہ پر موجود ہے