پاناما کیس کا فیصلہ کس کے حق میں اور کس کی مخالفت میں آئے گا سب کو سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے کا بے صبری سے انتظار ہے۔
پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے 10 جولائی کو دس جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس کے بعد عدالت کے 3 رکنی بینچ نے
17 جولائی سے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل بینچ نے کیس کی مسلسل پانچ سماعتیں کیں اور گزشتہ روز آخری سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔ عدالت نے فیصلہ محفوظ کرنے کے بعد بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ پہلی ہی نااہلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں اور جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ گارنٹی دیتے ہیں وزیراعظم کی نااہلی کا جائزہ لیں گے جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ محفوظ کیے جانے کےبعد حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی کی صورت میں نیا وزیراعظم لانے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔
ذرائع کے مطابق اگر وزیراعظم نااہل ہوئے تو 45 دن کے لیے عبوری وزیراعظم لایا جائے گا جس کے لیے خواجہ آصف مضبوط امیدوار ہیں جب کہ مستقل طور پر وزیراعظم کے لیے شہبازشریف امیدوار ہیں جنہیں ایم این اے منتخب کراکر وزیراعظم بنایا جائے گا۔ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں طے کیا گیا کہ سپریم کورٹ سے فیصلہ حق میں نہ آنے کی صورت میں تمام آئینی و قانونی آپشن استعمال کیے جائیں گے اور سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑا جائے گا ۔ مسلم لیگ (ن) نے عدالت عظمیٰ سے ممکنہ طور پراپنےخلاف فیصلے پر ہرصورت عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے ممکنہ سیاسی مضمرات سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کرلی ہے۔
ذرائع کا کہناہے کہ خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں متبادل وزیراعظم کے طور پر خواجہ آصف مضبوط امیدوار بن کے ابھرے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی کئی دیگر نام بھی لیے جارہے ہیں جن میں احسن اقبال، سردار ایازصادق اور خرم دستگیر کے نام بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں جامع حکمت عملی ترتیب دی دی گئی ہےجب کہ حکمران جماعت کی حالیہ مشاورتی نشستوں میں طے کرلیاگیاہےکہ پاناما کیس کے دو پہلو ہیں ایک قانونی اور دوسرا سیاسی۔ حکمران جماعت نے فیصلہ کیا ہےکہ قانونی طور پر سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلہ کو ہرصورت قبول کیاجائےگا اور کوئی محاذ آرائی کی صورت پیدا نہیں ہونے دی جائےگی تاہم قانونی فیصلے کو تسلیم کرنے کے باوجود اس کاسیاسی سطح پر بھرپور مقابلہ کیاجائےگا اور اپوزیشن کی جانب سے الزامات اور مہم جوئی کا بھرپور مقابلہ کیاجائےگا۔
ذرائع نے بتایا کہ حکمران جماعت نے متبادل وزیراعظم کےحوالے سے مکمل مینڈیٹ اور اختیار وزیراعظم کو دیاہے کہ وہ جس کو چاہیں اپنا متبادل نامزد کردیں۔ اس کے لیے 4 اہم خصوصیات کا حامل ہونا ضروری قرار دیاگیا ہے، ایک تو وہ پارٹی سے طویل وابستگی یعنی تجربہ کار ہو اور دوسرا مسلمہ وفاداری کی تاریخ رکھتاہو، تیسرا پارٹی کے اندر اس کی توقیر اور تعلقات دوستانہ ومفاہمانہ ہوں جب کہ چوتھا اور بہت اہم اس کی وزیراعظم کے ساتھ کمیونی کیشن اچھی ہو۔ ذرائع کا مزید کہناہےکہ سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کے بعد پارلیمانی پارٹی کا اجلاس بلاکر وزیراعظم پر پھر اعتماد کا اظہار کیاجائےگا اور عارضی اور مستقل متبادل وزیراعظم کے انتخاب کی صورت میں وزیراعظم کے فیصلوں کی تائید کی جائےگی۔