عین اس روز جب امریکا نے پاکستان کی کرم ایجنسی میں ڈرون حملہ کیا، جس میں پانچ افراد مارے گئے، امریکا کی سینٹ میں ٹرمپ کی ریپبلیکن پارٹی کے ایک ممتاز رہنما، سینیٹر رینڈ پال نے پاکستان کی امداد یکسر بند کرنے اور دو ارب ڈالر کی امداد کی ادائیگی پر فی الفور پابندی عائد کرنے کے لئے مسودہ قانون پیش کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو امریکی وزارت خارجہ کے فنڈ سے ایک ارب اٹھائیس کروڑ ڈالر کی جو رقم دی جاتی ہے اورامریکا کی بین الاقوامی ترقیاتی ایجنسی کی طرف سے جو پچاسی کروڑ ڈالر کی امداد دی جاتی ہے، ان سب کی ادائیگی روک دی جائے۔
اس سال کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے اپنے ٹویٹ میں کہا تھا کہ پاکستان نے امریکا کو بے وقوف بنایا ہے اور پچھلے پندرہ سال میں امریکا سے 33 ارب ڈالر وصول کئے ہیں اور اس کے عوض محض جھوٹ بولا اور دھوکہ دیا۔ ٹرمپ نے سینہ تان کر اعلان کیا کہ اب امریکا اور بے وقوف نہیں بنے گا۔ پاکستان کو بقول ٹرمپ کے اپنے ہاں دھشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم کرنی ہوں گی۔
یکم جنوری کے اس ٹویٹ سے پہلے پچھلے سال اگست میں ٹرمپ نے افغانستان اور جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنی حکمت عملی کا اعلان کیا تھا جس میں زور پاکستان میں دھشت گردی کے سنگین مسلہ کے بجائے پاکستان میں حقانی گروپ کے قلع قمع پر دیا گیا تھا جس کے بارے میں امریکا کو تشویش ہے کہ یہ افغانستان میں امریکی فوجوں پر حملے کرتا ہے۔
ٹرمپ کی اس حکمت عملی پر پاکستان میں بے حد شور مچا تھا اور وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کی کائونسل کے ہنگامی اور طویل اجلاس ہوئے تھے لیکن امریکا کی حکمت عملی کے بارے میں کوئی جامع پالیسی منظر عام پر نہیں آئی۔ پاکستان کی حکومت نے حزب مخالف کے سیاسی دھرنوں اور پارلیمنٹ کی لعن طعن کے ہنگاموں کی پیچھے چھپ کر امریکا کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی۔ ماضی میں پاکستان کے ساتھ امریکا کے غیر دوستانہ اور غیر منصفانہ رویہ پر غور نہیں کیا گیا اورنہ اس تاریخی حقیقت کر مد نظر رکھا گیا کہ کس طرح 1954ء میں امریکا نے اپنی سر د جنگ میں پاکستان کو سینٹو اور سیاٹو کے فوجی معاہدوں میں زبردستی گھسیٹا اور جب 1965ء اور 1971ء میں ہندوستان کے ساتھ جنگوں میں پاکستان نے ان معاہدوں کے تحت امریکی امداد طلب کی تو صاف جواب دے دیا گیا کہ یہ فوجی معاہدے سویت یونین کے خلاف ہیں، ان کا ہندوستان سے کوئی تعلق نہیں۔ امریکا نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ پاکستان کو اسلحہ کی سپلائی پر بھی پابندی عائد کر دی۔
ماضی کے ان تلخ تجربات کی روشنی میں مستقبل کے بارے میں امریکا کے بارے میں کوئی حکمت عملی وضع نہیں کی گئی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے والوں نے ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء کی حکمت عملی کے نہایت خطرناک پہلوئوں کو نظر انداز کرنے کو ترجیع دی ہے جن میں اس علاقہ میں امریکا، ہندوستان اور افغانستان کا گٹھ جوڑ نمایاں نظر آتا ہے۔ اب اس گٹھ جوڑ میں اسرائیل بھی شامل ہوگیا ہے۔
ٹرمپ کی دھمکیوں کے بعد یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور معرکہ آرائی کے بجائے، امریکا کا اقتصادی بائیکاٹ کرنا چاہئیے جس کا یقیناً فوری اور دیر پا اثر ہوگا۔ یہ کہا گیا تھا کہ پاکستان کے اتنے وافر وسائل ہیں کہ وہ امریکی امداد کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے لیکن یہ سب اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے پھلجھڑیاں تھیں جو تھوڑے سے شرارے کے بعد بجھ گئیں۔
پاکستان پر امریکا کے تازہ ڈرون حملہ اور امریکی سینٹ میں پاکستان کی امداد فوراً بند کرنے کے قانون پیش کیے جانے کے بعد بیشتر مبصرین کا کہنا ہے امریکا کے بارے میں پاکستان کی پالیسی یکسر ناکام ہوگئی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امریکا کے بارے میں پاکستان کی کوئی پالیسی ہے بھی؟