اسلام آباد، لاہور( ویب ڈیسک) سینئر صحافی و تجزیہ نگار حسن نثار نے کہا ہے کہ آصف زرداری پر خون پسینے سے کمائی گئی دولت کا دباﺅ ہے اوریہ خون پسینہ کسی اور کاہے ۔ آصف زرداری کو پتہ ہے کہ اگر سندھ تک ہی محدود ہوجائیں تو بڑا کھلا مال ہے اور دباﺅ سارا دولت کا ہے اورکوئی دباﺅ نہیں ہے ۔ وہ نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اپنا موقف دے رہے تھے۔ حسن نثار کاکہناتھاکہ جتنے بڑے منصوبے ہوتے ہیں ، اتنے ہی بڑے حصے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے حسن نثار اپنے کالم کرپشن کی قسمیں میں لکھ چکے ہیں کہ ہمارے بہت سے پڑھے لکھوں کو بھی اندازہ نہیں کہ کرپشن کا مطلب اور اس کی کیا ہے۔ مالی کرپشن تو کرپشن کی صرف ایک ننگی چٹی قسم ہے ورنہ اس کی بیشمار قسمیں اور جہتیں ہیں اور اگر میں یہ کہوں کہ اوقات کار کے دوران فون پر گپیں ہانکنا بھی کرپشن ہے تو یہ غلط نہ ہوگا۔ یہ واقعہ کسی مسلمان نے نہ پڑھا سنا ہوگا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنی رہائش گاہ پر حکومتی منصب داروں کے ساتھ سرکاری امور پر محو کلام تھے۔ حکومتی امور پر مکالمہ ختم ہوا تو ذاتی قسم کی گفتگو شروع ہوتے ہی امیر المومنین نے چراغ بجھا دیا۔ حاضرین نے وجہ پوچھی تو فرمایا ’’چراغ میں تیل بیت المال کا تھا، نجی گفتگو کے دوران اس تیل کا جلنا خیانت ہوگی‘‘۔ یہ ہے کرپشن کی وہ قسم جو ہمارے بہت سے دانشوروں کو نہ سمجھ آتی ہے نہ آئے گی کیونکہ ان کے نزدیک سرکاری وسائل پر براہ راست ڈاکہ ہی کرپشن ہے۔ جنرل ضیاء الحق بے شک مالی طور پر کرپٹ ہرگز نہ تھے لیکن سیاسی طور پر سرتاپا کرپشن میں لتھڑے ہوئے تھے۔ بابائے قوم کے آخری ایام کا یہ واقعہ جب پڑھو رُلا دیتا ہے کہ بھوک تقریباً ختم ہو چکی تھی، جسمانی ضعف انتہا پر تھا جب سٹاف نے ان کے فیورٹ باورچیوں کو لائل پور سے بلوایا۔ ان کا تیار کیا گیا کھانا قائد کو سرو کیاگیا تو ذرا رغبت سے نوش فرمایا۔ اچانک اس حالت میں بھی یہ پوچھا کہ ’’آج کھانا کس نے بنایا؟‘‘ پس منظر سے آگہی پر خفا ہوئے اور سرزنش کی۔ بطور گورنر جنرل اور ’’بانی‘‘ کے گورنر جنرل ہائوس کی بتیاں بجھاتے دیکھے گئے اور وہ بھی کرپشن ہی کی ایک قسم تھی جس کے نتیجہ میں بالآخر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ قدرت اللہ شہاب راوی ہیں کہ کیبنٹ میٹنگ جاری تھی جس کے دوران کسی بنگالی وزیر نے جان کی امان پائے بغیر یہ عرض کیا کہ امریکہ سے سینیٹری کا جوسامان تحفے میں ملا ہے، اس میں سے کچھ مشرقی پاکستان کو بھی عطا ہو تو مغربی پاکستان کے توندوں اور مونچھوں والے وزرا نے بے ساختہ قہقہے بلند کرتے ہوئے حقارت سے کہا …………’’تم لوگوں نے یہ سامان کیا کرنا ہے کیونکہ تم لوگوں (بنگالیوں) کو تو رفع حاجت کیلئے کیلے کے درختوں کی گاچھ ہی بہت کافی ہے‘‘یعنی تمہارے لئے کیلے کے پودوں کا جھنڈ ہی بطور’’باتھ روم‘‘ کافی ہے تو حضور! ایسی سوچ اور یہ رویہ بھی کرپشن ہی کی ایک بھیانک شکل ہے جس کا نتیجہ بنگلہ دیش کی شکل میں سامنے ہے۔میرٹ کو پامال کرتے ہوئے اپنے پروردہ لوگوں کو پروموٹ کرنا بھی کرپٹ پریکٹیسز کا حصہ ہے۔ نامعقول لیکن بظاہر مقبول فیصلے کر کے اپنا ووٹ بینک بنانا بڑھانا بھی کرپشن کا شہکار ہے جو موٹے دماغوں میں سما نہیں سکتا، موٹی کھالوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔ ناجائز منافع بھی ہے تو منافع ہی لیکن حد سے متجاوز منافع بھی، منافع کم اور کرپشن زیادہ ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آج یہ معیار ممکن ہے یا نہیں لیکن پڑھنے میں کیا برائی ہے کہ حضرت عمر بن خطابؓ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو کھجوروں کی تین ڈھیریاں لگائے بیچ رہا تھا۔ فاروق اعظمؓ نے اس سے ان تین ڈھیریوں بارے سوال کیا تو وہ بولا ’’امیر المومنین! ایک ڈھیری درجہ اول، دوسری درجہ دوم، تیسری درجہ سوم‘‘ آپ نے تینوں ڈھیریوں کو آپس میں ملاتے ہوئے کہا ’’ تم میری موجودگی میں حضورؐ کی امت کو تین حصوں میں تقسیم کررہے ہو؟ ان کی اوسط قیمت طے کرو‘‘…… یہ ہے رویہ!معاف کیجئے میں بہت دور نکل گیا لیکن کیا کروں بچپن سے سنی پڑھی یہ باتیں میرے خون میں رچ بس چکی ہیں جن سے جان چھڑانا بھی چاہوں تو ممکن نہیں۔ جو مرضی کرلوں میرے رول ماڈلز تبدیل نہیں ہوسکتے اور اپنے تمام تر سیکولرازم کے باوجود میں اندر سے اپنی قسم کا ’’کٹھ ملا‘‘ ہی ہوں ورنہ 22سال پہلے تحریک انصاف کو ’’روٹی کپڑا مکان‘‘ جیسا کوئی دنیادار سلوگن دینے کی بجائے یہ منشور نہ دیتا۔’’حکم اللہ کاقانون قرآن کارستہ رسولؐ کاپاکستان سب پاکستانیوں کا‘‘ریاست مدینہ کی اس تعریف کے علاوہ نہ کوئی دوسری تعریف مجھے بھاتی ہے نہ سمجھ آتی ہے اور یہی میرا ’’نیا پاکستان‘‘ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ملے نہ ملے مجھے اس کی بھی پروا نہیں کہ اس کے تو خواب و خیال میں رہنا ہی جمال زیست ہے۔یہ تو ہوئے چند ’’جملہ ہائے معترضہ‘‘ جن کے بعد واپس ان کی طرف چلتے ہیں جن کے نزدیک صرف مالی کرپشن ہی کرپشن ہے جبکہ کرپشن کی تعریف بے کراں اور کثیرالجہت بھی ہے۔مالی، سیاسی، سماجی، روحانی، جذباتی، نفسیاتی، انتظامی، اخلاقی غرضیکہ ’’کرپشن‘‘ کی کئی قسمیں ہیں۔ یہاں تک کہ نیت اور آنکھ کی کرپشن کے بھی اپنے ہی کرشمے ہیں۔ جس نے مال مویشی یا کسی اور قسم کے سامان کا نقص بتائے بغیر اسے گاہک کے سر مڑھ دیا، وہ بھی کرپٹ ہے۔ راستے کا حق ادا نہ کرنے والا بھی کرپٹ ہے کیونکہ کرپشن صرف اقتدار کے ایوانوں اور غلام گردشوں تک محدود نہیں کہ خود غلام بھی کرپٹ، بدعنوان ہوسکتے ہیں، صرف اشراف ہی نہیں اجلاف بھی کرپٹ ہو سکتے ہیں کیونکہ درباروں کے طور طریقے بازاروں تک میں سرایت کر جاتے ہیں۔ کرپشن کی ایک تعریف یہ بھی ہے۔ اور کرپشن کی مختصر ترین کچھ یوں ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کا کہنا ہے۔’’اپنے ذاتی مفادات کیلئے طاقت کو Abuseکرنا کرپشن ہے‘‘اور ’’طاقت‘‘ صرف سیاسی، انتظامی، ادارہ جاتی ہی نہیں ہوتی۔ گھر کے سربراہ سے لیکر کسی ادارے کے سربراہ تک سب اپنی اپنی قسم کی ’’طاقت‘‘ کے حامل ہوتے ہیں اور اس کا غلط استعمال کرسکتے ہیں خواہ وہ غیر شعوری، غیر ارادی طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ ’’لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام‘‘ والی بات ہے بلکہ یوں کہیں کہ کارزار ہستی میں پل صراط عبور کرنے جیسا کام ہے اور یہ بوجھ، عہدہ، منصب، پوزیشن، طاقت، اختیار، اقتدار کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے اور نوبت اس تعریف تک جا پہنچی ہے۔