لاہور: سوال بنتا ہے ۔۔ سوال تو بنتاہے کہ لہو کا خراج دینے والے جوان افسروں اور جری جوانوں کے باوردی لاشوں پر بین کرتی بیواوں اور ماوں نے اس قوم کاکیا بگاڑا تھاکہ ا نہیں ہی دہشت کی علامت بنا دیاگیا ،سوال تو بنتا ہے کہ غیرملکی ایجنڈے پر گامزن ایک پچیس یا چھبیس سالہ نوجوان ریاست مخالف بیانئے کے بعد پھولوں کی پتیاں نچھاور کئے جانے جیسے ردعمل کی توقع کیسے رکھ سکتا ہے ، سوال تو بنتا ہے کہ موم بتی مافیا کی انسانی ہمدردیوں کی حدیں صرف ریاست مخالف ایجنڈے ، افغانستان سمیت بھارت کی محبت اور اینٹی پاکستان نیریٹو تک ہی کیوں محدود ہوجاتی ہیں۔۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے حورایوں کو ایسا کیوں لگتا ہے کہ ہر وہ بیانیہ جس کا تعلق ریاست کے غیرمستحکم ہونے سے ہے وہی ہیومن رائیٹس کا بنیادی نکتہء عروج ہے ،سوال تو بنتا ہے کہ’ دہشت گردی کے پیچھے وردی‘ کو جوڑنے والے ملک کو جوڑنے کی بجائے اسے توڑنے کے کیوں درپے ہیں، سوال تو بنتا ہے کہ مسنگ پرسنز کی بات کرنے والے کسی مجمے میں اپنے ہی ملک کے پرچم کا داخلہ بند کراکے کس ملک کا پرچم لہرانا چاہتے ہیں ۔ ۔کیا یہ دھرتی پہ نچھاور ہونے والے سپوتوں اور مادر وطن کے ساتھ غداری کا ارتکاب نہیں ہے ۔۔سوال تو یہ بھی بنتا ہے کہ افغان صدر، منظور پشتین اور پی ٹی ایم سے بذریعہ ٹویٹ محبت کی پینگیں بڑھا کر دنیا ، بھارت اور پاکستان کو کیا دکھانا چاہتے ہیں ۔ سوال
تو بہت تلخ ہیں اور ایسے بیانئے کے حامل شخص سے یہ سوال کسی صحافی کو نہیں بلکہ ریاست کو براہ راست کرنے چاہئیں ۔ اوراب شایدوہ لمحہ آن پہنچاہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’ را ‘ اور افغان حکومت ( این ڈی ایس ) کی گود میں پلنے والے منظور پشتین کی قسمت میں ملک دشمنی’ نامنظور ‘ ۔۔ اورمنظور پشتین ’نامنظور‘کے نعرے بلند ہونا ناگزیر ہو چکا ہے۔اگر ہم نے اپنی سمت درست کرنے میں دیر کردی تو ہم آنے والی نسلوں کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہیں گے کہ جن شہیدوں کی ماوں اور بہنوں نے دھرتی کے لئے اپنے خوبرو جوان قربان کر دئیے ۔ ان کے خون کے چھینٹوں پر ایک غیر ملکی ایجنٹ تھوکتا رہا تو قوم خاموش تھی۔ ماں جیسی عظیم دھرتی کی حفاظت پر مامور لاکھوں جوانوں کی حب الوطنی کو ’یہ جو دہشت گردی ہے ۔۔ اس کے پیچھے وردی ہے ‘ کا نعرہ بلند کرنیوالااپنے ہی چند غداروں کی گود میں بیٹھ کے قہقہے لگاتا رہا تو قوم خاموش تھی۔۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ غیرملکی پالیسیوں کے پیروکار اور ریاست مخالف بیانئے کے علمبردار’موم بتی مافیا صحافیوں ‘سے کیا کوئی یہ پوچھنا پسند کرے گا کہ جسے آپ دور حاضر میں پاکستان کا ابھرتا ہواکاونٹر نیریٹو بنا کر بین الاقوامی میڈیا پر بھاشن دیتے رہے ہیں ۔۔
وہ اس وقت کہاں تھا جب پاکستان میں دہشت گردی کی کمان افغانستان سے سنبھالی جا رہی تھی ۔۔کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ منظور پشتین اس وقت کہاں تھا جب امریکی ڈورنز روزانہ درجنوں پاکستانیوں کو نشانہ بنا کر اپنے ٹھکانے کو واپس چلے جاتے تھے لیکن آواز تک بلند نہ ہوتی تھی ۔ منظور پشتین اس وقت کہاں تھا جب شمالی علاقہ جات کی کوکھ میں طالبان نے اپنی رٹ قائم کر رکھی تھی اور پاک فوج ہی اللہ کے بعد واحد آسرا تھی جو ملک کو عدم استحکام کے اس بھنور سے نکال سکتی تھی۔ منظور پشتین اس وقت کہاں تھا جب قندوز سانحے میں سینکڑوں حفاظ کرام بچوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔۔ یہ بات اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے ساتھ درست نہیں ہوا۔ جو لوگ غائب ہیں انہیں سامنے لا کر عدالتوں پیش کیا جانا چاہیے ۔ مطالبات جائز ہیں تو سنے اور پرکھے جانے چاہیءں ۔ لیکن کیا ان مطالبات کی آڑ میں کسی کو ریاست مخالف ایجنڈے اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کو پروان چڑھانے کی اجازت دی جا سکتی ہے ۔ کیا یہی منظور پشتین اگر بھارت میں رہ کر بھارت مخالف علم بلند کرتا تو ان کا میڈیا اور عوام اسے برداشت کرتے ، قطعی نہیں کرتے ۔
تو پاکستان ہی میں پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی اتنی سپورٹ کیوں؟ ایسا ملک جس کے پاسپورٹ پر اسرائیل مخالف عبارت تحریر ہو کہ سبز پاسپورٹ اسرائیل کے سفر کے لئے کارآمد نہیں ہے اور اسی ملک میں منظور پشتین کے حق میں نکالی گئی ریلی میں ’اسرائیل زندہ باد‘ اور ’ پاکستان مردہ باد‘ کے نعرے لگ جائیں تو ذمہ دار کس کو ٹھہرایا جائے ۔ وہی منظور پشتین اپنی افواج کے خلاف نعرے لگا کر بھارت اور افغانستان سے محبتیں وصول کرتا رہے تو کس سے گلہ کیا جائے ۔ یہاں یہ بتانا نہایت ضروری ہے کہ منظور پشتین ہے کون ؟ ’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ جیسے ریاست مخالف نعرے کے علمبردار منظور پشتین کے والد کا نام عبدالودود ہے ۔ پشتین کا تعلق جنوبی وزیرستان کے گاوں ریشواڑہ سے ہے جہاں محسود قبائل اکثریت میں آباد ہیں اور منظور پشتین بھی محسود ہے ، گومل یونیورسٹی سے وٹرنری میڈیسن میں گریجویشن کرنے والے منظور پشتین کے والد پیشہ تدریس سے وابستہ تھے ، موصوف کے تین بھائی اور تین بہنیں ہیں۔ جبکہ ایک بھائی اللہ کو پیارا ہو چکا ہے ۔اب ذرا موصوف کے خاندان کے طالبان سے تعلقات کی بات کر لیتے ہیں ۔ منظور پشتین کا ایک بھائی قاری محسن تحریک طالبان پاکستان کا سرگرم کارکن رہ چکا ہے اور خودکش بمبار تیار کرنے کے حوالے سے بدنام ’قاری حسین‘ کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہے۔
موصوف کا یہ بھائی یعنی قاری محسن آج کل منظر عام سے غائب ہے اور روپوش ہونے کی بظاہر وجہ پوری قوم سمجھ سکتی ہے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ منظور پشتین خود بھی تحریک طالبان پاکستان کے کافی قریب رہا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ یعنی پی ٹی ایم کی حمایت میں سب سے پہلے خم ٹھونک کر سامنے آنے والی جماعت بھی تحریک طالبان پاکستان ہی تھی۔ 2014 ء میں پی ٹی ایم کی بنیاد رکھنے کے بعد منظور پشتین کے این ڈی ایس ، را اور سرخوں سے تعلقات بننا شروع ہوئے اورمنظور پشتین آزاد پشتونستان کے نعروں اور جھنڈوں کے ساتھ بنائی جانیوالی تصاویر میں مختلف ویب سائیٹس پر نظر آنے لگا۔ منظور پشتین نے 10 سے 15 دسمبر 2017ء کے درمیان افغانستان کا دورہ کیا ۔ اور اس دورے کے دوران ان کی ملاقات افغان انٹلی جنس کے اعلی ترین عہدیداروں میں سے ایک ولی داد قندھاری سے ہوئی ، یہی نہیں بلکہ سی آئی اے کے اہلکاروں سے بھی پشتین کا میل ملاپ ہوا۔ اور ان ملاقاتوں کے لئے اہم کردار ادا کرنے والی شخصیت کا تعلق ہمارے پارلیمان ہی سے تھا۔ خود کو اچکزئی کہلانے والے یہ صاحب کئی بار پاکستان مخالف علم بلند کر چکے ہیں۔
بعدازاں سوشل میڈیا پرلبرلز نے منظور پشتین کی پی ٹی ایم موومنٹ کو ہوا دی جو جلسوں میں موجود شخصیات کی شمولیت سے صاف واضح ہے ۔یہ بڑے بڑے نام ہیں جو بظاہر حب الوطنی کا پرچار کرتے ہیں لیکن اس موومنٹ میں برابر کے شریک ہیں اور پاکستان مخالف بیانئے پر کھل کر طبع آزمائی کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔ یہ لوگ ریاست پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں ۔ سب سے اہم اور حیران کن حقیقت اس تحریک میں منظور پشتین کا دست راست محسن داوڑ نامی لبرل ہے جو چند سال پہلے تک فاٹا میں آپریشن اور پشتونوں پر ڈرون حملوں کا سب سے بڑا حمایتی تھا۔ اور اب ریاست مخالف بیانئے کا سب سے بڑا حامی ہے۔اگر ریاست اتنی ہی سخت گیر اور اقربا پروری کی حامی ہوتی تو موصوف آج پارلیمان کا حصہ نہ ہوتے۔ باقی اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں کہ مسنگ پرسنز کے نام پر شروع ہونیوالی اس تحریک اور اس کے روح رواں کو کس طرح ہائی جیک کیا گیا ہے۔اپنوں کی غیروں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی یہ کہانی کوئی نئی نہیں ہے ۔ ایم کیو ایم لندن کی ابتدا کو دیکھا جائے تو ان کا بیانیہ بھی مہاجروں کو بچانا تھا لیکن ایک وقت پر آکروہ ریاست کی ایسی خطرناک مخالفت پر اتر آئے کہ ان کے قائد لندن میں بیٹھ کر بھارت سے مدد طلب کرتے دکھائی دئیے۔
عصر حاضر میں ہمیں اپنے اردگر ایسے کئی میر جعفر اور میر صادق ملیں گے جو اپنی ہی ریاست کو کھوکھلا کرکے چند نادیدہ قوتوں کا کھلونا بننا چاہتے ہیں ۔ افغان صدر کا پشتون تحفظ موومنٹ کے حق میں بولنا اس بات کی گواہی ہے کہ یہ لاڈلا انہی کا پالا ہوا ہے ۔ جس کے پیچھے بھارتی خفیہ ایجنسی راء بیٹھی ہوئی ہے ۔ ۔راء کا طریقہ واردات یہی رہا ہے کہ وہ ہمیشہ ہمارے لوگوں کو استعمال کرتی ہے اور پوری دنیا میں ان کی مظلومیت کا پرچار کرتی ہے ، پھر چاہے وہ بھارت کی گود میں پلنے والا براہمداغ بگٹی ہو ، بلوچستان علحدگی تحریک سے وابستہ دیگر بلوچ ہوں، منظور پشتین ہو یا کوئی اور ان کے سروں پر پاکستان کو ایسے معاملات اور کرداروں میں الجھائے رکھنے کی دھن سوار رہتی ہے۔۔ افغانستان یاافغان حکومت کو بھارت کے اندر خالصتان تحریک کی آواز سنائی کیوں نہیں دیتی ۔ان کے مظلوم سکھوں کے حق میں افغان صدر کا ٹوئیٹ سامنے کیوں نہیں آتا ۔ بات اتنی سی ہے کہ بھائی چارہ چل رہا ہے۔ دوستانہ چل رہا ہے اور ان کی لفظی گولہ باری کا ٹارگٹ صرف پاکستان ہی ہے۔ہمیں اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ ہمارے موم بتی مافیا اور بلیک کافی پی کے ملک مخالف فتوے جارے کرنے والے دانشوروں کو اس عفریت کی اصلیت کو سمجھنا ہوگا ۔یہ سوچنا ہو گا کہ ہم معاملے کی نزاکت کو سمجھے بغیر اغیار کے ہاتھوں کہیں کھیل تو نہیں رہے ۔ ہماری صفوں میں موجود منظور پشتین کے ہمدردوں اور حامیوں کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ معاملہ مسنگ پرسنز کا ضرور ہے لیکن اس معاملے میں پاک فوج سے مذاکرات سے انکار بھی خود منظور پشتین نے ہی کیا ہے ۔ اس تحریک کے پیچھے ملک دشمن قوتوں کا ہاتھ ہے جو ہماری افواج کوملک کے اندرونی اور بیرونی محاذوں پر غیرمستحکم دیکھنا چاہتی ہیں ۔یہ کھیل بڑا واضح ہے اور فیصلے کا اختیار عوام پاکستان کے ہاتھ میں ہے ، ریاست پاکستان کی غیور عوام کو ریاست مخالف ایجنڈے پر منظور پشتین جیسے کرداروں کو ’نامنظور‘ کرنا ہوگا۔ اسی میں ہی اس ملک، اس قوم اور اس خطے کی بقا ہے۔