لاہور (ویب ڈیسک) یہاں ہر چیز نرالی ہے۔ لاہور میں حکومتی عقل نے تھیٹروں میں شوز بجے رکھا ہوا ہے۔ کوئی اِن سیانوں سے پوچھے کہ ایسی تفریح کیلئے یہ کون سا وقت ہے؟ دورانِ شب جب مہذب لوگ بیٹھتے ہیں تو اپنی اپنی کارروائی ڈال کے 11 بجے سونے کی تیاری نامور کالم نگار ایاز امیر روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ کر رہے ہوتے ہیں۔ رات کے اُس پہر ملی نغمے تو گائے نہیں جا سکتے۔ تھیٹر جائیں گے تو لچر گفتگو ہی سُنیں گے۔ یہ توقع کرنا کہ جن حضرات کا تھیٹر سے تعلق ہے وہ اُس وقت قوم کی تعمیر و ترقی کی گفتگو کریں گے‘ بیوقوفی کی بات ہے۔ تب تو وہی چلے گا جو رات گئے تھیٹروں میں چلتا ہے۔ ورنہ سامعین جوتے اُٹھا کے سٹیج کی طرف دے ماریں گے۔ حکومتوں کو کون سمجھائے کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے۔ جو چیزیں صبح درست لگتی ہیں شام ڈھلے اُن کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تھیٹر جیسا بھی ہے‘ سو ہے‘ لیکن ہر مہذب ملک میں تھیٹر کا رواج ہے اور شام گئے جو لوگ کلچر کا دعویٰ کرتے ہیں‘ تھیٹر میں ڈرامہ دیکھنے جاتے ہیں یا کسی کنسرٹ ہال میں موسیقی سننے جاتے ہیں۔ پاپ میوزک سنیں یا کلاسیکی موسیقی، اَپرا (opera) کا شوق رکھتے ہوں یا بیلے (ballet) دیکھنے کی خواہش، مہذب معاشروں میں اِن تمام چیزوں کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ لیکن تھیٹر ہو یا کوئی ڈانس پرفارمنس وہ شام کے پہلے پہر منعقد ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں یہی دستور ہے۔ لندن، پیرس، ٹوکیو یا بیجنگ میں تھیٹر پرفارمنس 11 بجے نہیں لگتیں۔ ہاں نائٹ کلب کے شو تب چلتے ہیں لیکن لاہور میں طوفان آ جائے اگر کوئی کہے کہ تھیٹر تو صرف نام ہے‘ اصل میں نائٹ کلب شو ہو رہا ہے۔ وہاں شام کے پہلے پہر تھیٹروں کے سٹیج سجتے ہیں۔ شو ختم ہوتا ہے تو میخانے آباد ہوتے ہیں۔ پھر کسی نے نائب کلب جانا ہو تو اُدھر کا رخ کرتا ہے۔ رات 11 بجے لوگ بستروں میں ہوتے ہیں اور جو باہر ہوں اُن کا موڈ اُس وقت تک تھوڑا باغیانہ ہو چکا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اور کچھ کرنے کو نہ ملے اور مجبوراً تھیٹر کا رخ کرنا پڑے تو اُس وقت بھلا مانس آدمی بھی ہو تو اُس کا دل لچر پن کی طرف مائل ہو گا۔ تھیٹر کے حضرات… فنکار اور فنکارائیں… یہ ضرورت محسوس کرتے ہوئے اِسے پوری کرتے ہیں‘ یعنی جانتے ہوئے کہ سامعین کیا چاہتے ہیں‘ وہی چیز اُن کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ یہ تو ڈیمانڈ اور سپلائی کی بات ہے۔ سامعین کو دیکھ کے اور اُن کا موڈ بھانپ کے جُگتیں بھی اُسی قسم کی ادا کی جاتی ہیں۔ انہی آرٹسٹوں کو آپ نجی محفلوں میں ملیں تو شاید آپ سے بہتر گفتگو کریں۔ سٹیج پہ جاتے ہیں اور رات کا وہ تقاضا ہوتا ہے تو اُسی قسم کی چیز مہیا کرتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ خرابی آرٹسٹوں میں نہیں، ذومعنی باتیں اُس خاص ماحول کا تقاضا بن جاتی ہیں۔ لہٰذا ضرورت تھیٹروں کے اصلاح کی نہیں بلکہ حکومتوں کے عقل کی ہے۔ 11 بجے سے تھیٹر شوز کا ٹائم تبدیل ہو کر 7 یا 8 بجے ہونا چاہیے تاکہ فیملیز جا سکیں اور دیگر حضرات بھی جو کلچرڈ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ سامعین تھوڑے بدل جائیں تو تھیٹروں میں ڈائیلاگ بھی تبدیل ہو جائیں گے۔ پھر سکرپٹ پہ زیادہ دھیان دیا جائے گا اور جو فی البدیہہ ڈائیلاگ تھیٹروں میں عام طور پہ ادا کیے جاتے ہیں اُن میں بھی تبدیلی آ سکے گی۔ رات 11 بجے تو ایک خاص قسم کا ناظر ہی تھیٹر جاتا ہے۔ پھر ڈائیلاگ بغیر سکرپٹ کے ہوں تو وہی کچھ سُننے کو ملے گا جو آج کل ملتا ہے۔ اور محافظِ کلچر جناب فیاض الحسن چوہان جیسے ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے۔ ایسے حضرات کا عموماً یہ مسئلہ رہتا ہے کہ اُن کی کبھی نہ کبھی وابستگی جمعیت یا جماعت اسلامی سے رہی ہوتی ہے۔ جماعت چھوڑ بھی جائیں تو کسی نہ کسی شکل میں یہ اُن میں رہتی ہے۔ ایسے حضرات کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کا کردار ہوتا ہے۔ زندگی کے کسی شعبے میں عورت کا رول ہو تو اِن محافظینِ اخلاقیات کو دھڑکا لگ جاتا ہے۔ خیال تو اُنہیں اپنا کرنا چاہیےلیکن فکر اُنہیں عورت کی رہتی ہے کہ وہ نقاب کے پیچھے ہو، پردے میں ہو، کھیل کے میدان میں بھی کچھ نظر نہ آئے، سکوٹر یا موٹر سائیکل پہ بھی مکمل پردے میں ہوں۔ایسے لوگوں کا اپنا پرابلم تو ہوتا ہے لیکن وہ اوروں کیلئے بھی پرابلم پیدا کر دیتے ہیں۔ نوجوانی میں جب کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جاتے ہیں تو اُن کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا کہ پڑھی لکھی لڑکیوں سے کیسے بات کریں۔ اس کیفیت کا فائدہ اٹھانا جمعیت نے بہت پہلے سیکھ لیا تھا۔ اسلام کے نام پہ کالجوں اور جامعات میں وہ ایک خاص قسم کا درس دیتی رہی‘ اور اپنے مخصوص نظریات کے پھیلاؤ کیلئے ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کرتی رہی ہے۔ پاکستان میں تعلیم کی انحطاط اور تباہی کے بہت عوامل ہوں گے‘ لیکن جامعات پہ جمعیت کا قبضہ بھی ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ عیسائیت میں بھی بہت فرقے ہیں لیکن آج کے دور میں وہاں کوئی زبردستی نہیں کرتا۔ ہمارے ہاں بہت سی چیزوں میں زبردستی پائی جاتی ہے۔ لیکن ہماری درسگاہوں میں ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ یہاں عمومی طور پہ گھٹن کا ماحول ہے۔ جہاں کہیں آزادی ہوتی ہے وہاں اور روشیں جنم لے لیتی ہیں۔ جو جامعات لبرل سمجھی جاتی ہیں‘ اُن میں آپ دیکھیں گے کہ ہر وقت لڑکے لڑکیاں آپس میں مل بیٹھنے کی تلاش کرتے رہتے ہیں۔ کلاسوں کا ٹائم بھی ہو تو ایسا ہوتا ہے۔ باہر کی یونیورسٹیوں میں چونکہ میل جول کے اور مواقع بہت ہوتے ہیں تو پڑھنے کے ٹائم پڑھا جاتا ہے۔ وہاں لڑکے لڑکیاں شام کو پارٹیاں کرتے ہیں، پبوں میں جاتے ہیں، اور خاص طور پہ یہ جو موسم ہے دسمبر کا، اب سے لے کر کرسمس اور نیو ائیر تک تو وہاں یونیورسٹیوں میں ہر رات مختلف مقامات پہ پارٹیاں برپا ہو رہی ہوتی ہیں۔ چونکہ ہمارے گھٹن زدہ معاشرے میں ایسا نہیں ہے تو پھر جو وقت ملتا ہے اُسے غنیمت سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں دیرینہ مسئلہ وہی عورت کا ہے۔ تھیٹروں میں صرف مرد فنکار ہوں تو فیاض الحسن چوہان جیسوں کو کبھی فکر لاحق نہ ہو۔ ہمارے مخصوص اسلام پسندوں کا بس چلے تو خواتین کہیں نظر ہی نہ آئیں۔ اُن سے منسلک خواتین ایک خاص قسم کا برقعہ پہنتی ہیں جس میں صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ اِس پہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔ انسان جو چاہے لباس پہنے۔ وزیر اعظم کی اہلیہ بھی ایسا ہی برقعہ پہنتی ہیں۔ اِس پہ بھی کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اگر وہ چادر اور چار دیواری میں رہیں‘ لیکن اِس مخصوص پردے کا اہتمام کریں اور پھر پبلک میں بھی آئیں تو شاید پاکستان جیسے رجعت پسند معاشرے کیلئے کوئی پروگریسیو پیغام نہیں۔ اگر تمام پاکستانی خواتین ایسا ہی پردہ کرنے لگیں تو اِس ملک کا کیا بنے گا؟ آج پاکستانی خواتین لڑاکا طیارے اُڑا رہی ہیں۔ برقعہ پہن کے وہ ایسا کر سکتی ہیں؟دنیا ہماری نہیں۔ ہم دنیا کے مسکینوں میں ہیں۔ جو بھی دعوے کرتے رہیں ایٹم بم وغیرہ کے‘ ہم اوروں کے محتاج ہیں۔ موجودہ صورتحال ہی دیکھ لیجیے۔ عالمی تناظر میں جو رقم ہمیں درکار ہے وہ کوئی زیادہ نہیں‘ لیکن اُس کے حصول کیلئے دَر دَر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ خود ساختہ پابندیوں میں جکڑے ذہن اور جذبات آگے کی طرف قدم نہیں رکھ سکتے۔ ترقی کی دوڑ میں کامیاب ہونے کی پہلی شرط ذہنوں کی آزادی ہے۔ یورپ کا ذہن پہلے آزاد ہوا اور ترقی بعد میں ہوئی۔ ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے موجدِ ایٹم بم، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جو ریگولر اخباری مضامین لکھتے ہیں ایک آدھ بار درس دے چکے ہیں کہ کن حالات میں بیویوں کے علاوہ کنیزوں کا رکھنا جائز ہے۔ کسی اور ملک میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ اپنے آپ کو کوئی نیوکلیئر سائنسدان کہے اور ایسی باتیں کرے؟ یہاں شاید سب چلتا ہے۔ چلتا رہے لیکن پھر بھی درخواست ہے کہ تھیٹروں کے ٹائم کو تھوڑا مہذب کیا جائے۔ فنکاروں کے لئے بہتر ہو گا اور ہمارے لیے بھی۔ شاید معاشرے پہ بھی اِس کے اچھے اثرات پڑیں۔