ایک دن صبح سویرے حضور اکرم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ساتھ تشریف فرما تھےکہ صحابہ کرام رضوانﷲعلیہم نے ایک طاقتور اور مضبوط جسم والے نوجوان کو روزگار کے لئے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر کہا کاش اس کی جوانی اور طاقتاللہ کی راہ میں خرچ ہوتی تو رحمت عالم صلیﷲعلیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایسا مت کہو ۔کیونکہ اگر وہ محنت و کوشش اس لئے کرتا ہے کہ خود کو سوال کرنے (مانگنے) سے بچائے اور لوگوں سے بےپرواہ ہوجائے تو یقینا وہ ﷲ کی راہ میں ہے۔اور اگر وہ اپنے ضعیف والدین اور کمزور اولاد کے لئے محنت کرتا ہے تاکہ انہیں لوگوں سے بےپرواہ کردے اور انہیں کافی ہوجائے تو بھی وہ اللہ کی راہ میں ہے اور اگر وہ فخر کرنے اور مال کی زیادہ طلبی کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہےدوڑ کرتا ہے تو وہ شیطان کی راہ میں ہے۔ ”(المعجم الاوسط جلد 5 حدیث نمبر 6835)(المعجم الصغیر باب المیم) واضح رہے امام علی (ع) کی حقانیت معاویہ کی زبانی معاویہ ،محمد بن ابی بکر کو نامہ تحریر کرتے ہوئے کہتا ہے میں اور میرا باپ ابو طالب علیہ السلام کے بیٹے کی فضیلت سے بخوبی وقف تھے،جیسے ہی پیغمبر گرامی اسلام (ص)نے اس دار فانی کو وداع کہا تمہارے والد اور فاروق(عمر)ان لوگوں میں سے سب سے پہلے تھے جنہوں نے علی علیہ السلام کے حق کوغصب کرنے اور ان کے حکم سے سرپیچی کرنے کے لئے قدم بڑھایا اور اس فعل شنیع کو انجام دینے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ ہو کر علی علیہ السلام کو اپنی بیعت کرنے کی دعوت دی لیکن علی علیہ السلام ان کی بیعت کے لئے آمادہ نہیں ہوئے تو وہ دو لوگ آپکے قتل کے در پے ہو کر موت کی دھمکی دینے لگے ۔ (مروج الذھب مسعودی۱۹۹/۳، موقعہ صفین از نصر بن مزاحم۱۹۹، پیشوایان ہدایت مترجم، عباس جلالی ص۱۷۳) حضرت علی (ع) کے انسانی امتیازات:ابن ابی الحدید علی علیہ السلام کے انسانی کمال کے متعلق تحریر کرتے ہوئے کہتا ہے:بزرگی، عظمت، ہیبت اور شہرت وغیرہ بطور اتم ذات علی علیہ السلام میں موجود ہیں جس کے بارے میں بحث کرنا بیکار ہے، میں اس با کمال ذات کے متعلق کیا کہہ سکتا ہوں جس کےدشمن بھی اس کی فضیلت کا انکار نہ کر سکے، بلکہ وہ خود اس کی عظمت و بزرگی کے قائل ہیں، میں اس شخص کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں جس کی ذات میں ساری فضیلتیں تمام ہوتی ہوں اور ہر طرح کی فضیلت و کمال اس کی ذات سے نسبت کی خواہاں ہے بیشک وہ فضیلتوں کا سردار ہے۔(قطب عالم امکان علی احمد زندیان، ص۷۲)