قلم کار کے نزدیک حکمران اور عوام کے درمیان روابط کے حوالے سے اہم کامیابی حاصل ہوئی سٹیزن ویب پورٹل کا قیام دور جدید کا انوکھا آئیڈ یا۔عوامی شکایات کی شنوائی اور ازالے کیلئے جدید ڈیجیٹل سہولیات انٹرنیٹ کا استعمال رابطوں کو موثر بنائے گا۔ شکایات سیل کا قیام کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔
ماضی کے حکمرانوں نے بھی ا س حوالے سے نت نئی اخترائیں نکالیں۔سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنے دو راقتدار میں براہ راست عوامی شکایات سننے کیلئے ٹیلی فون کال سننے کا عمل متعارف کرایا تھا۔کچھ عرصہ وہ شکایات براہ راست سنتے بھی رہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ وزیر اعظم کیلئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ایسی مشق کو جاری رکھے۔ اسی طرح پرویز مشرف نے بھی ایسی ہی مشق کی تھی۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے بھی مانیٹرنگ سیل گریوینسیز سیل شکایات سیل کے ناموں سے ایسے انتظامات کیے۔ کچھ لوگوں کی شکایات کا ازالہ ہوا کچھ کا نہیں ہو سکاہوگا۔ عوامی شکایات عام طور پر سرکاری محکموں کے متعلقہ ہوا کرتی ہیں۔ بیوروکریسی ایسی شکایات سن تو لیتی ہیں۔ لیکن ازالے کیلئے کوئی موثر اقدامات نہیں اٹھاتی۔ موجودہ حکومت نے جو طریقہ نکالاہے وہ موثر، مسلسل اور دیرپا ہے۔ اس کا ریکارڈ مرتب کرنا آسان ہے۔ اور ازالے کیلئے کوشش نہ کرنے والے اہلکار کی نشاندہی کرکے اس کے خلاف کاروائی کرنا ممکن ہو گا۔ وزیر اعظم آفس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکاری اہلکاروں کو یاد دہانی کیلئے مختلف رنگوں کے کاغذوں پر مبنی خطوط ارسال کیے جائینگے۔ سرخ رنگ کا کاغذ اس بات کی نشانی ہو گی کہ متعلقہ افسر کوئی کاروائی کرنے میں ناکام رہا ہے۔
لہٰذا وہ تادیبی ایکشن کیلئے تیار رہے۔ اسی طرح ایک اور اہم اقدام سادگی و کفائت شعاری مہم ہے۔ غیر ضروری گاڑیوں کو فروخت، عملہ میں کمی اور پروٹوکول سے اجتناب۔ اس اقدام میں شنید ہے وزیر اعظم ایوان صدر کے اخراجات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ وزرائے کرام سرکاری افسروں کے غیر ملکی دوروں میں بھی خاصی کمی آئی ہے۔ ایوان صدر دیگر سرکاری عمارات میں پرتعیش دعوتوں اور تقریبات کی بھی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ایوان صدر میں ظہرانے اور عشائیوں میں سادہ ترین کھانے کا مشاہدہ تو خاکسار نے خود کیا ہے۔ قومی اسمبلی اور دیگر عمارتوں پر بھی سرکاری اخراجات میں کمی آئی ہے۔ کوئی بھی حکومت اپنا ایجنڈا اسی صورت میں نافذ کر سکتی ہے۔ جب وہ موثر قانون سازی کرے۔ اس حوالے سے حکومت کو ابھی تک کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا دعوی ہے کہ انہوں نے مقصود ایشو پر انقلابی قانون سازی کا مسودہ کیا ہے۔ لیکن ایسا مسودہ کس کام کا۔ قانون سازی تو پارلیمنٹ کا کام ہے۔ کوئی مسودہ قانون سب سے پہلے متعلقہ وزارت کی قائم کمیٹی میں جاتا ہے۔ زیر بحث آتا ہے۔ اس میں ترامیم کی جاتی ہیں۔پھر کہیں جا کر وہ مسودہ حتمی شکل اختیار کر کے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظوری کےمراحل سے گزرتا ہے۔
پھر کابینہ منظور کرتی ہے۔ صدر مملکت کے پاس دستخط کیلئے جاتا ہے۔ تب کہیں جا کر وہ قانون بنتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت ابھی تک قائم کمیٹیاں مکمل نہیں کر سکی جس کی وجہ سے قانون سازی کا عمل لیٹ پڑا ہے۔ تین ماہ گزر چکے۔ 4 اجلاس گزرچکے لیکن ڈیڈ لاک کی سی کیفیت ہے۔ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے معاملہ پر تنازع قانون سازی کی راہ میں اکاؤنٹ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس تنازع کو حل کرے۔ تاکہ قومی اسمبلی اپنا کردار ادا کرے۔ اسی طرح فارن پالیسی کا معاملہ ہے۔ حکومت فارن پالیسی پر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ وزیرا عظم عمران خان نے سب سے پہلے تو امریکی صدر کی پرزہ سرائی کا بحث موثر اور دبنگ انداز میں جوا ب دیا ہے۔ جسکے بعد امریکی حکام کے ہوش ٹھکانے آئے ہیں۔ اب وہ پس پردہ رابطوں کے ذریعے معاملات کو کول ڈاؤن کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم کے چین، سعودی عرب، متحدہ امارات ملائشیا کے مثبت اثرات سامنے آئے ہیں۔ کچھ ظاہری اور کچھ پوشیدہ۔سعودی عرب نے کھل کر اقتصادی پیکج دیا۔ موخر ادائیگی پر تیل بھی۔ چین کا سٹائل ذرا مختلف ہے۔ وہ اعلان کر کے کچھ نہیں کرتے۔ اور کچھ نہیں ہوا تو سی پیک پر چھائے شکوک کے بادل جھٹ گئے۔ یو اے ای نے بھی سرمایہ کاری کا دعوی کیا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں جو سفارتی چھکا ہے۔ وہ کرتارپورہ بارڈر کی اوپننگ ہے۔ جس کے دور رس سفارتی اثرات ہونگے۔ 5 لاکھ مکانوں کی تعمیر بلدیاتی انتخابات، ایک کروڑ نوکریاں اور معیشت کی بحالی ایسے اقدامات ہیں۔ جو پی ٹی آئی کیلئے کڑا چیلنج ہیں۔ ان چیلنجوں سے عہدہ براہ ہونے کیلئے سو دن کافی نہیں۔ اس کیلئے پی ٹی آئی کو کڑی محنت کرنا ہو گی۔ عمران خان کا کپتانی کا یہ مشکل ترین دور ہے کہ وہ کیسی کپتانی کرتے ہیں۔