پورے ملک میں توپوں کی دھنا دھن‘ جنگی طیاروں کی چنگھاڑ اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ تھی‘ سڑکوں پر دور دور تک لاشیں پڑی تھیں‘ عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی تھیں‘ سڑکیں ختم ہو چکی تھیں‘ بجلی اور پانی بند تھا‘پبلک ٹرانسپورٹ دم توڑ چکی تھی‘ خوراک سپلائی ٹوٹ چکی تھی اور ہر گلی‘ ہر محلے سے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور زخمیوں کی دہائیوں کے سوا کوئی آواز نہیں آتی تھی‘ پندرہ لاکھ زخمیوں کا علاج ممکن نہیں تھا چنانچہ ملک میں محب وطن شہریوں کے دو اسکواڈ بن گئے‘ ایک اسکواڈ شہر میں نکلتا تھا‘ اسے جہاں کوئی معمولی زخمی ملتا تھا‘ وہ زخم پر مرہم پٹی کے بجائے زخمی کی آنکھیں بند کرتا تھا اور اس کا پورا عضو کاٹ کر پھینک دیتا تھا‘ دوسرا اسکواڈ سنگین زخمی تلاش کرتا تھا اور انھیں گولی مار کر زندگی کے عذاب سے رہائی دے دیتا تھا‘ یہ پولینڈ کی صورتحال تھی‘ جرمن فوج نے یکم ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملہ کیا‘ یہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز تھا‘ یہ حملہ ستمبر کمپیئن کہلاتا ہے۔
یہ کمپیئن ایک مہینہ چھ دن چلی‘ پولش فوج کی تعداد ساڑھے نو لاکھ تھی‘ جرمنی‘ سلواکیہ اور سوویت یونین کی بیس لاکھ فوج نے پولینڈ پر حملہ کر دیا‘ جارح فوج کو 4959توپوں‘ 4736 ٹینکوں اور 3300 جنگی طیاروں کی سپورٹ حاصل تھی‘ یہ آئے اور پولینڈ میں مہینے میں ایک لاکھ 99 ہزار 700 لاشیں بچھا دیں اور یوں آرٹ‘ کلچر اور موسیقی کا مرکز پولینڈ ایک مہینے میں راکھ کا ڈھیر بن گیا‘ ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاشیں ہی لاشیں تھیں اور انھیں اٹھانے والا کوئی نہیں تھا‘ میں چھ بار پولینڈ گیا‘ میں جس شہر میں بھی گیا مجھے وہ وار میوزیم لگا‘ اس کی دیواروں پر 75 سال بعد بھی جنگ کے زخم تھے‘ آپ کو آج بھی وارسا اور کراکوف شہر کی گلیوں‘ بازاروں اور محلوں سے خون کی بو آتی ہے۔
جنگ کیا ہوتی ہے آپ پولینڈ کے لوگوں سے پوچھیں‘ یہ آپ کو بتائیں گے جنگیں ہوتی کیا ہیں اور انسان کو ان سے کیوں نفرت کرنی چاہیے‘ آپ پولینڈ نہیں جا سکتے تو آپ یورپ کے کسی شخص‘ کسی خاندان سے پوچھ لیں ’’جنگ کیا ہے؟‘‘ آپ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھیں گے‘یورپ نے یکم ستمبر 1939ء سے دو ستمبر 1945ء تک مسلسل چھ سال جنگ بھگتی‘ ان چھ برسوں میں یورپ‘ امریکا اور جاپان کے 6 کروڑ لوگ ہلاک ہو گئے‘ امریکا نے آخر میں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرائے‘ ہیرو شیما میں دو منٹ میں ایک لاکھ 40 ہزار لوگ جب کہ ناگاساکی میں 75 ہزار لوگ ہلاک ہوئے اور جو زندہ بچے وہ عمر بھر کے لیے معذور ہو گئے‘ جنگ عظیم دوم میں یورپ کا کوئی شہر سلامت نہیں رہا تھا‘ بجلی‘ پانی‘ سڑکیں‘ ریل کا نظام‘ اسکول‘ کالج اور خوراک ہر چیز مفقود ہو گئی تھی۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی یورپ میں عالمی جنگوں سے قبل سور نہیں کھایا جاتا تھا‘ لوگ پورک سے نفرت کرتے تھے لیکن جب جنگوں کے دوران خوراک کی قلت ہو گئی تو لوگوں نے سور کھانے شروع کر دیے اور وہ دن ہے اور آج کا دن ہے پورک اب پورے یورپ کی خوراک بن چکا ہے‘ جنگ کے بعد یورپ سے مرد ختم ہو گئے تھے چنانچہ یورپ شادی کا سسٹم ختم کرنے پر مجبور ہوگیا‘ عورت صرف عورت اور مرد صرف مرد بن کر رہ گیا‘ آپ جنگوں کے دوران یہودیوں کی داستانیں پڑھیں‘ آپ اندر سے دکھی ہو جائیں گے‘ سیکڑوں ہزاروں یہودی خاندان دو دو برس گٹڑوں میں رہے‘ ان کی ایک پوری نسل گٹڑوں میں پیدا ہوئی اور اس نے سیوریج کا پانی پی کر کھڑا ہونا سیکھا‘ آپ یورپ کی پہلی جنگ عظیم بھی دیکھئے‘ یہ جنگ 28 جولائی 1914ء سے 11 نومبر 1918ء تک چار سال تین ماہ چلی‘ یورپ نے ان سوا چار برسوں میں ساڑھے چار کروڑ لوگوں کی قربانی دی۔
یہ جنگ آسٹریلیا اور نیوزی کی ہر ماں کی گود اجاڑ گئی‘ ترکی کا جزیرہ گیلی پولی قبرستان بن گیا‘ آپ آج بھی جزیرے کے کسی کونے سے مٹی کی مٹھی بھریں‘ آپ کو اس میں انسان کے جسم کی باقیات ملیں گی‘ آپ ان باقیات سے پوچھیں‘ جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ آپ کو جنگ کا مطلب سمجھائیں گی اور آپ کو پھر بھی پتہ نہ چلے تو آپ ویتنام‘ افغانستان اور افریقہ کے جنگ زدہ ملکوں سے پوچھ لیں‘ ویتنام کے لوگوں نے ساڑھے 19 سال جنگ بھگتی‘ افغانستان پچھلے 35 برسوں سے لاشیں اٹھا رہا ہے جب کہ افریقہ کے ملکوں نائیجیریا‘ لائبیریا‘ سیرالیون‘ایتھوپیا‘ صومالیہ‘ یوگنڈا ‘ گنی اورسوڈان میں جنگ نے قحط کو جنم دیا اور یہ قحط اب افریقہ کے ہر شخص کی آنکھوں میں لکھا ہے‘ آپ ان آنکھوں سے پوچھ لیں جنگ کیا ہوتی ہے؟ یہ آپ کو بتائیں گی انسان جب اپنے والد‘ اپنے بچے اور اپنی بیوی کا گوشت ابال کر کھانے پر مجبور ہو جاتا ہے یا یہ جب اپنے لخت جگر کو زخموں سے رہائی دلانے کے لیے گولی مارتا ہے تو اس کا دل‘ اس کی روح کہاں کہاں سے زخمی ہوتی ہے‘ یہ باقی زندگی کیسے زندہ رہتا ہے؟ یہ لوگ آپ کو بتائیں گے!
ہم برصغیر پاک و ہند کے لوگوں نے بدقسمتی سے اصلی اور مکمل جنگ نہیں دیکھی‘ ہندوستان کی تمام جنگیں محدود تھیں‘ ہم پنجابی سینٹرل ایشیا کے ہر حملہ آور کا اٹک کے پل پر استقبال کرتے تھے‘ اسے ہار پہناتے‘ سپاہیوں کو خوراک اور گھوڑوں کو چارا دیتے تھے اور سیدھا پانی پت چھوڑ کر آتے تھے‘ یہ ہماری تاریخ تھی‘ تاریخ نے ایک بار پلٹا کھایا اور انگریز پانی پت سے لاہور آ گیا‘ ہم نے اسے بھی ہار پہنائے اور سیدھا جلال آباد جھوڑ کر آئے‘ انگریز باقی زندگی افغانوں سے لڑتے رہے اور ہم ان کے سہولت کار بنے رہے‘ ہم 1857ء کی جنگ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ کہتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے‘ یہ جنگ دہلی سے 75 کلو میٹر کے فاصلے پر میرٹھ میں شر وع ہوئی اور دہلی پہنچ کر ختم ہو گئی۔
یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئی تھی اور پنجاب‘ سندھ‘ ممبئی‘ کولکتہ اور ڈھاکا کے لوگوں کو جنگ کی خبر اس وقت ہوئی جب ملبہ تک سمیٹا جا چکا تھا اور بہادر شاہ ظفر رنگون میں ’’ کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں‘‘ لکھ رہا تھا‘ ہم اگر 1965ء اور 1971ء کی جنگوں کا تجزیہ بھی کریں تو یہ جنگیں ہمیں جنگیں کم اور جھڑپیں زیادہ محسوس ہوں گی‘ 1965ء کی جنگ چھ ستمبر کو شروع ہوئی اور 23 ستمبر کو ختم ہو گئی‘ پاکستان اور بھارت 17 دن کی اس جنگ کو جنگ کہتے ہیں‘ یہ دونوں ملک ہر سال اس جنگ کی سالگرہ مناتے ہیں‘ 65ء کی جنگ میں چار ہزار پاکستانی شہید اور تین ہزار بھارتی ہلاک ہوئے تھے‘ یہ جنگ بھی صرف کشمیر‘ پنجاب اور راجستھان کے بارڈر تک محدود رہی تھی‘ ہندوستان اور پاکستان کے دور دراز علاقوں کے عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی جب کہ 1971ء کی جنگ تین دسمبر کو شروع ہوئی اور 16 دسمبر کو ختم ہو گئی۔
اس جنگ میں میں 9 ہزار پاکستانی شہید ہوئے اور 26 ہزار بھارتی اور بنگالی ہلاک ہوئے‘ آپ کسی دن ٹھنڈے دل کے ساتھ 13 اور 17 دنوں کی ان جنگوں کو یورپ کی چار اور چھ سال لمبی جنگوں اور ان تین ہزار‘ چار ہزار‘ 9 ہزار اور 26 ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ اور چھ کروڑ لاشوں کے سامنے رکھ کر دیکھیں‘ آپ لاہور اور ڈھاکا پر حملے کو دیکھیں‘ آپ 1965ء کے پٹھان کوٹ اور چونڈا کے حملوں کو دیکھیں اور پھر ہیرو شیما‘ ناگا ساکی‘ پرل ہاربر‘ نارمنڈی‘ ایمسٹرڈیم‘ برسلز‘ پیرس‘ لندن‘ وارسا‘ برلن اور ماسکو پر حملے دیکھیں اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ آپ کے جسم کا ایک ایک خلیہ آپ کو جنگ کی ماہیت بتائے گا‘ ہم دونوں ملک جنگ سے ناواقف ہیں‘ ہم جانتے ہی نہیں ’’جنگ کیا ہوتی ہے؟‘‘ چنانچہ ہم ہر سال چھ ماہ بعد ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں‘ بھارت ممبئی کے حملوں‘ پارلیمنٹ پر دہشت گردی‘ پٹھان کوٹ اور اڑی بریگیڈ ہیڈ کوارٹر پر حملے کے بعد جنگ کی دھمکی دیتا ہے اور پاکستان معمولی واقعات پر ’’ہم نے یہ ایٹم بم شب برات پر چلانے کے لیے نہیں بنائے‘‘ کا اعلان کر دیتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ دونوں نہیں جانتے جنگ کیا ہوتی ہے‘ ایٹم بم کیا ہے اور یہ جب پھٹتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟۔
میں بعض اوقات سوچتا ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ ہو جانی چاہیے‘ یہ دونوں ملک جی بھر کر اپنے جنگی ارمان پورے کر لیں‘ یہ اپنے سارے ایٹم بم چلا لیں تا کہ یہ ایک بار برصغیر کے 110 شہروں کو موہن جو داڑو بنا دیکھ لیں‘ یہ خیر پور سے گوا تک پانچ دس کروڑ لاشیں بھی دیکھ لیں‘ یہ عوام کو دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا بھی دیکھ لیں‘ یہ زندگی کو ایک بار بجلی‘ ٹیلی فون‘ پانی‘ سڑک‘ اسپتال اور اسکول کے بغیر بھی دیکھ لیں اور یہ پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے بھی دیکھیں‘ یہ تب جنگ کو سمجھیں گے‘یہ اس کے بعد جاپان اور یورپ کے لوگوں کی طرح جنگ کا نام نہیں لیں گے‘ یہ اس وقت یورپ کی طرح اپنی سرحدیں کھولیں گے اور بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں گے اور یہ اس وقت اڑی اور کوئٹہ کو امن کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننے دیں گے‘ راوی اس وقت چین ہی چین لکھے گا‘ اس سے پہلے ان بے چین لوگوں کو چین نہیں آئے گا‘ یہ ہیرو شیما اور وارسا بننے تک جنگ جنگ کرتے رہیں گے۔