پاکستان کی تاریخ میں دو سیاسی بحران ایسے گزرے ہیں جن کا مقابلہ حکمرانوں نے کیا، عوام کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ پہلا بحران 1968 میں ایوب خان کی حکومت کے دوران پیدا ہوا، عوام میں ایوب خان اس قدر بدنام اور رسوا ہوئے کہ انھوں نے اس رسوائی سے شرمسار ہوکر خود اپنی صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔
اس حوالے سے دوسرا بڑا بحران ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران اٹھا اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ مقبول حکمران ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت سے ہٹا دیا گیا، گرفتار کیا گیا اور پھانسی بھی دی گئی، لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ نہ بھٹو نے یا ایوب خان نے یہ دعویٰ کیا کہ عوام ہمارے ساتھ ہیں۔
بھٹو کو ایک انتہائی متنازعہ مسئلے میں عدالت نے سزائے موت کا فیصلہ سنایا، بھٹو نے جان دے دی لیکن عوام سے مدد نہیں مانگی نہ عدالت کے خلاف کوئی سخت پروپیگنڈہ مہم چلائی بلکہ عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے پھانسی کے پھندے پر لٹک گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایوب خان کو فوجی آمر ہوتے ہوئے اپنی عزت پیاری تھی اور بھٹو کو پاکستان کا سب سے زیادہ مقبول رہنما رہنے کے باوجود اپنی عزت عزیز تھی۔
نواز شریف کے ساتھ بھی دو نہیں تین بار اس قسم کی صورتحال پیدا ہوئی، ان کی پہلی حکومت کو سویلین صدر نے برخاست کیا اور الزام کرپشن کا لگایا۔ 1999 میں میاں صاحب کی حکومت کو فوجی آمر نے ختم کیا اور میاں صاحب فوجی آمر سے یہ تحریری وعدہ کرکے کہ وہ دوبارہ سیاست میں قدم نہیں رکھیں گے، ملک سے باہر چلے گئے اور آٹھ سال تک ملک سے باہر رہے اور یہ عرصہ انھوں نے سعودی عرب میں شاہی مہمان کی حیثیت سے شاہی محلوں میں عیش و عشرت کے ساتھ گزارا، لیکن اپنا کاروبار جاری رکھا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو نے پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کرکے نواز شریف کے لیے ملک واپسی اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی راہ ہموار کی۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اقتدار سے علیحدگی کے بعد نواز شریف عدلیہ سے ناراض رہے، حتیٰ کہ ان پر سپریم کورٹ پر حملے کا الزام بھی لگا، پاناما لیکس میں نواز شریف اور ان کی فیملی پر بھاری کرپشن کے الزامات لگائے گئے اور اسی حوالے سے عدالت عظمیٰ نے انھیں وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دے کر انھیں تاحیات بھی نااہل قرار دے دیا اور انھیں اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی نااہل قرار دے دیا۔
میاں صاحب نے اس عدالتی فیصلے کو عوامی مینڈیٹ کی توہین قرار دے کر جی ٹی روڈ پر ایک ریلی نکالی اور اعلان کیا کہ عوام نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ اس ملک میں 21 کروڑ عوام رہتے ہیں جنھیں شریف برادران کے دور حکومت میں کوئی ریلیف نہ ملا بلکہ ان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ اس تناظر میں ملک کی بھاری اکثریت فطری طور پر ان کی مخالف ہوگئی لیکن میاں برادران عدلیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپنے نو رتنوں کے ذریعے عدلیہ اور فوج پر سخت تنقید کرواتے رہے اور خود بھی نااہلی کو سازش قرار دیتے رہے۔
اسی حوالے سے موصوف نے آئین میں ترمیم کرا کر اپنی پارٹی کی صدارت پر دوبارہ واپسی کی راہ ہموار کی جب پارلیمنٹ میں انتخابی ترمیم کا بل پاس کرایا گیا تو پوری اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی کہ اس ترمیم کا مقصد ایک شخص کو فائدہ پہنچانا تھا۔ اس حوالے سے ورکرز کا ایک کنونشن بھی کیا گیا جس میں پارٹی کے قوانین میں ترمیم کرا کر نااہلی کے حوالے سے عدلیہ کے فیصلے کو مسترد کرادیا گیا اور کہا گیا کہ یہ عوام کا فیصلہ ہے، جب کہ کنونشن میں چار پانچ ہزار کے لگ بھگ خواص نے شرکت کی اور اس فیصلے کو بھی ملک کے 21 کروڑ عوام کا فیصلہ کہا گیا۔
میاں نواز شریف نے پارٹی کی مرکزی جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ‘‘ مجھے سیاست سے نکالتے رہے اور عوام مجھے سیاست میں واپس لاتے رہے۔ موصوف نے کہا کہ قانونی موشگافیوں سے عوامی مینڈیٹ کی توہین نہ کی جائے۔ غلط فیصلوں سے ملک و قوم کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ پاکستان پر حکمرانی کا حق عوام کو حاصل ہے اس امانت میں خیانت نہ کی جائے، ہمارے سیاستدان مینڈیٹ کا جا و بے جا استعمال کرتے رہتے ہیں، حالانکہ عوام کا مینڈیٹ خواہ وہ دھاندلی کے الزام میں کتنا ہی ملوث کیوں نہ ہو ہمیشہ مشروط رہتا ہے۔
انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتیں انتخابات سے پہلے عوام کے سامنے اپنا منشور پیش کرتی ہیں اور انتخابی وعدے بھی عوام سے کرتی ہیں، اس حوالے سے عوام انتخابات میں انھیں ووٹ دے کر کامیاب کرواتے ہیں، یوں عوام کا مینڈیٹ غیر مشروط نہیں، جیتنے والی پارٹی کے منشور اور انتخابی نعروں اور وعدوں سے مشروط ہوتا ہے، اگر کوئی اقتدار میں آنے والی جماعت اپنے منشور اور انتخابی وعدوں پر عملدرآمد نہیں کرتی تو منطقی طور پر عوامی مینڈیٹ ختم ہوجاتا ہے۔
عوامی مینڈیٹ کے حصول کا دعویٰ کرنے والوں کو ایمانداری سے اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا انھوں نے اپنے دور حکومت میں حکمران جماعت کی حیثیت سے اپنے منشور اور انتخابی وعدوں پر عمل کیا ہے؟ بدقسمتی سے ہماری جمہوری تاریخ میں برسر اقتدار آنے والی کسی جماعت نے نہ اپنے منشور پر عمل کیا نہ انتخابی وعدوں پر عمل کرنے کی زحمت کی۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کس حوالے سے حکمران جماعتیں اپنے حق اقتدار کو عوامی مینڈیٹ کہتی ہیں؟ نواز شریف نے فرمایا کہ ہم نے سقوط ڈھاکا سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آزادی قیمت مانگتی ہے، اس کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔ حاکمیت عوام کی امانت ہے، اس میں خیانت بند کی جائے۔ تنبیہ کر رہا ہوں چال نہیں بدلی تو پاکستان ہمیں معاف نہیں کرے گا۔
میاں صاحب کی یہ بات درست ہے کہ ہمیں سقوط ڈھاکا سے سبق لینا چاہیے۔ اس حوالے سے یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ سقوط ڈھاکا کا ایک اجمالی جائزہ لیا جائے۔ 1970 کے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت سے مجیب الرحمن کی عوامی لیگ جیت گئی تھی، یہ جیت کسی انتخابی دھاندلی کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ مغربی پاکستان کی سول اور ملٹری اشرافیہ 1970 کے انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار مجیب الرحمن کو دے دینا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہماری انتخابات جیتنے والی پارٹی نے مغربی پاکستان میں اپنی حکومت بنانے کے بجائے یہ کہنا شروع کیا کہ ادھر ہم، ادھر تم پر فیصلہ کیا جائے۔
اگرچہ اس وقت پاکستان پر ایک فوجی ڈکٹیٹر یحییٰ خان کی حکومت تھی اور ہماری فوجی بیورو کریسی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ بھلے ملک ٹوٹ جائے لیکن مجیب الرحمن کو مرکز میں حکومت بنانے نہیں دیں گے۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی فوجی بیورو کریسی کا فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے عوامی لیگ کے سربراہ کی حکومت بنانے میں مدد کرتے تو سقوط ڈھاکا کا المیہ پیش نہ آتا۔ اس سے یہ سبق لیا جاسکتا ہے کہ سیاستدانوں کی اقتدار کلی کی ناجائز خواہش کی وجہ سے ملک ٹوٹ گیا۔
پاکستان میں جو بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے، اس کا اصل پس منظر یہ ہے کہ جو طاقتیں پاکستان میں 70 سالہ لوٹ مار کو لگام دینا چاہتی ہیں، عوامی مینڈیٹ کی توہین کے نام پر ان کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔ اگر احتساب ہو رہا ہے تو حکمران پارٹی یہ منصفانہ موقف پیش کرتی کہ احتساب صرف برسر اقتدار جماعت کا ہی کیا جائے بلکہ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں خاص طور پر پاناما لیکس کے 400 سے زیادہ ملزموں اور بینکوں سے دو کھرب قرضہ معاف کرانے والوں کا بھی احتساب کیا جائے تو اسے عوام کی حمایت حاصل ہوجاتی لیکن حکمران جماعت صرف اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو روکنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے وہ عوامی حمایت سے محروم ہے، صرف عوامی مینڈیٹ کی توہین کی آواز بلند کر رہی ہے اور دعویٰ کر رہی ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں۔