اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے کئی رہنما پارٹی چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں
قومی اخبار میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق مسلم لیگ ن کو قومی و صوبائی اسمبلی کے تگڑے اُمیدوار ڈھونڈنے میں شاید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ کس کو ٹکٹ دی جائے اور اُمیدوار کہاں سے لایا جائے، یہ معاملہ مسلم لیگ ن کے لیے درد سر بن گیا ہے ، جنوبی پنجاب ، بلوچستان اور سندھ سے ٹکٹ اپلائی کرنے کے لیے دئے گئے وقت پر صرف 35 حلقوں سے اُمیدواروں کے نام سامنے آنے پر مجبوراً 31 مئی تک تاریخ بڑھانا پڑی، ذرائع نے بتایا کہ ن لیگ کو لاہور ، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور فیصل آباد سے بھی ن لیگ کو نئے تگڑے اُمیدوار نہیں مل سکے بلکہ ان شہروں میں تو ایک ایک اُمیدوار نے خانہ پُری کے لیے دو، دو اور تین تین حلقوں سےالیکشن لڑنے کے لیے درخواستیں دے رکھی ہیں، ن لیگ نے مقررہ تاریخ میں ٹکٹ کے حصول کے لیے درخواستیں دینے والی کی فہرست چیک کی گئی تو اس میں جنوبی پنجاب کے تو 70 فیصد حلقے ایسے تھے جہاں ان کے پاس کوئی نامور اُمیدوار نہیں تھے اور کئی حلقوں سے تو اُمیدواروں کی درخواستیں تک نہیں آئیں، اس سے بُری صورتحال خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور سندھ کی تھی، ذرائع کا کہنا ہے کہ 31 مئی تک زیادہ سے زیادہ درخواستیں جمع کروانے کے لیے ن لیگ کی تنظیم کو ہدایت جاری کی گئی ہیں ، ذرائع نے بتایا کہ 31 مئی تک زیادہ سے زیادہ درخواستیں جمع کروانے کے لیے ن لیگ کی تنظیم کو بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں، اور یہاں تک کہا گیا ہے کہ چاہے اُمیدوار تگڑا ہے یا نہیں، درخواست جمع کروائیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ ہمارے پاس سب سے زیادہ درخواستیں موجود ہیں، ایک اہم ن لیگی رہنما نے بتایا کہ ہمیں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ خود ہی مختلف لوگوں کے ناموں سے درخواستیں لکھ کر جمع کرواتے جائیں اور ٹارگٹ دیا گیا ہے کہ ہر حلقے سے کم از کم تین نام ضرور ہونے چاہئیں، ذرائع کے مطابق سب سے زیادہ مسئلہ ن لیگ کے اندر گروپنگ کی وجہ سے بھی بنا ہوا ہے۔ مریم نواز نے اپنے پسندیدہ جبکہ حمزہ شہباز نے اپنی لابی کو سپورٹ کرنا شروع کر دیا ہے، دونوں کسی صورت میں بھی اپنے اُمیدواروں سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں، اس گروہ بندی کی وجہ سے وسطی پنجاب میں جو ان کے مضبوط اضلاع ہیں وہاں بھی سخت نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے۔