آپ تھوڑا سا پیچھے چلے جائیں‘ یہ 30 نومبر 2015ء تھا‘ پیرس میں عالمی ماحولیاتی تبدیلی کانفرنس ہو رہی تھی‘ بھارتی وزیراعظم نریندر
مودی نے ایک گجراتی صنعتکار کے ذریعے حسین نواز سے رابطہ کیا‘ وہ میاں نواز شریف سے ملنا چاہتے تھے‘ فیصلہ ہوا نریندر مودی کانفرنس کے دوران میاں صاحب سے ملاقات کریں گے۔
وزراء اعظم کے اسٹاف کے درمیان رابطہ ہو گیا‘ میاں نواز شریف کانفرنس ہال میں موجود تھے‘ نریندر مودی آئے ’’ہم کو بات کرنی ہے‘‘ کہہ کر میاں صاحب کا ہاتھ پکڑا اورکانفرنس ہال کے صوفے پر بیٹھ گئے‘ دونوں وزیراعظم وہاں اکیلے تھے‘ یہ دو منٹ کی مختصرسی ملاقات تھی جس میں نریندر مودی بولتے رہے اور میاں نواز شریف سنتے اور سر ہلاتے رہے‘ نریندر مودی نے اپنے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا ہوا تھا‘ وہ اپنے ہونٹوں کی حرکت کو کیمرے کی آنکھ سے بچا رہے تھے‘ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے تھے پاکستان کے پاس ایسے ماہرین موجود ہیں جو ہونٹوں کی حرکت سے لفظوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔
نریندر مودی نے اس ملاقات کے دوران میاں نواز شریف سے کیا کہا؟ یہ حسین نواز کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں لیکن جہاں تک نریندر مودی کی باڈی لینگویج کا تعلق تھا یوں محسوس ہوتا تھا وہ کسی مشکل کا شکار ہیں اور وہ میاں نواز شریف سے مدد چاہتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف کی باڈی لینگویج سے نظر آ رہا تھا وہ زیادہ بااعتماد اور لاتعلق ہیں‘ میاں نواز شریف نے اثبات میں سر ہلا کر مدد کا عندیہ بھی دے دیا جس کے بعد نریندر مودی نے پاکستان سے رابطوں کا وعدہ کر لیا‘ یہ وعدہ 6 دسمبر 2015ء کو پورا ہوا۔
پاکستان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرل ناصر جنجوعہ نے بنکاک میں بھارتی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت دوول سے ملاقات کی اور یوں دونوں مشیروں کے درمیان کمیونی کیشن شروع ہو گئی‘ اسلام آباد میں 8 دسمبر کو ہارٹ آف ایشیا کانفرنس تھی‘ بھارت نے اپنی وزیر خارجہ سشما سوراج کو کانفرنس میں شرکت کے لیے بھجوا یا اور سشما سوراج نے 9 دسمبر کو پاکستان کے ساتھ جامع مذاکرات کا اعلان کر دیا‘ یہ بہت بڑا بریک تھرو تھا۔
آپ اب دوسرا واقعہ بھی ملاحظہ کیجیے‘ نریندر مودی 25 دسمبر2015ء کو کابل میں تھے‘ مودی کے اسٹاف نے 25 دسمبر کی صبح 11 بجے میاں نواز شریف سے رابطہ کیا‘ میاں نواز شریف اپنی نواسی مہرالنساء کی شادی کے سلسلے میں لاہور میں تھے‘ نریندر مودی نے میاں صاحب سے کہا ’’میں واپس دہلی جا رہا ہوں‘ میری خواہش ہے میں اسلام آباد میں آپ سے ملاقات کرتا جائوں‘‘ میاں نواز شریف نے جواب دیا ’’میں نواسی کی شادی کی وجہ سے لاہور میں ہوں‘ آپ اگر لاہور آنا چاہیں تو موسٹ ویل کم‘‘ نریندر مودی نے ہاں کر دی‘ بھارتی وزیراعظم 25 دسمبر کو 4 بج کر 20 منٹ پر لاہور پہنچے‘ یہ جاتی عمرہ گئے اور ڈیڑھ گھنٹے میاں نواز شریف کے ساتھ رہے‘ اس دوران دونوں وزراء اعظم کے درمیان ’’ون ٹو ون‘‘ ملاقات بھی ہوئی۔
نریندر مودی کی ان دونوں حیران کن ملاقاتوں نے پوری دنیا کو پریشان کر دیا‘ دنیا جانتی تھی مودی پاکستان اور مسلمانوں دونوں کے دشمن ہیں‘ یہ جب بھی اقتدار میں آئیں گے‘ پاکستان کی تباہی ان کا اولین مقصد ہو گا لیکن یہ اقتدار سنبھالنے کے 18 ماہ بعد میاں نواز شریف کو پیرس میں ڈھونڈ کر ملے‘ یہ افغانستان سے واپسی پر شیڈول کے بغیر لاہور بھی آ گئے اور بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر جامع مذاکرات کا اعلان بھی کر دیا‘ یہ حیران کن تھا لیکن جب ہم آنے والے دنوں کے واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں۔
ہم جب نریندر مودی کی لاہور آمد سے لے کر 14 نومبر 2016ء تک بھمبر سیکٹر میں بھارتی گولہ باری اور اس گولہ باری میں سات پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے واقعات دیکھتے ہیں تو ہمیں ساری بات سمجھ آ جاتی ہے‘ بھارت 2015ء کے آخر میں تین بڑے ایشوز کا شکار تھا‘ بھارتی اداروں کو یہ اطلاعات مل چکی تھیں نان اسٹیٹ ایکٹرز بھارتی چھائونیوں کو ہدف بنانے کا پلان کر رہے ہیں‘ یہ لوگ اگر بھارت کی دس بیس چھائونیوں کو اڑا دیتے ہیں تو بھارت کی ساکھ اور معیشت دونوں تباہ ہو جائیں گی۔
یہ لوگ یہ بھی جان چکے تھے مقبوضہ کشمیر کے اندر ’’اپ رائزنگ‘‘ شروع ہو رہی ہے‘ کشمیری نوجوان اپنے حقوق کے لیے اٹھ رہے ہیں اور یہ مستقبل میں بھارتی فوج اور بھارتی ریاست دونوں کے لیے خوف ناک چیلنج ثابت ہوں گے اور بھارت یہ بھی جان گیا تھا‘ پاکستان ہر صورت پاک چین اقتصادی راہداری مکمل کرے گا جس کے بعد چین جیسی طاقت پاکستان کی محافظ بن جائے گی اور پھر بھارت کے لیے پاکستان کو نقصان پہنچانا مشکل ہو جائے گا چنانچہ نریندرمودی نے میاں نواز شریف کو انگیج کرنے کا فیصلہ کیا۔
اہم خبر! کہاں کا اسلامی ملک؟ اجتماعی زیادتی کا شکارہونے والی خاتون گرفتار
یہ اس انگیج منٹ کے ذریعے تین بڑے فائدے اٹھانا چاہتے تھے‘ اول‘ پاکستان بھارت میں موجود نان اسٹیٹ ایکٹرز کو سپورٹ نہ دے اور بھارت اگر حملہ آوروں کے بارے میں پاکستان کو معلومات دے تو پاکستانی ادارے بھارت میں موجود ’’ہینڈلرز‘‘ کے بارے میں بھارت کے ساتھ معلومات شیئر کریں یوں بھارت اپنی چھائونیوں کو بچانے میں کامیاب ہو جائے گا‘ دوم‘ پاکستان اگر مقبوضہ کشمیر کے معاملات میں شامل ہو گیا‘ یہ اگر کھل کر مقبوضہ کشمیر کی اپ رائزنگ کو سپورٹ کرنے لگا تو بھارت کے مسائل بڑھ جائیں گے چنانچہ مودی نے پاکستان کو انگیج کر کے اسے مقبوضہ کشمیر کی اپ رائزنگ سے دور رکھنے کا فیصلہ کیا۔
اس کا خیال تھا یوں کشمیری اکیلے ہو جائیں گے اور بھارتی فوج آسانی سے ان سے نبٹ لے گی اور سوم‘ بھارت ’’سی پیک‘‘ کو ملتوی کرانے کے لیے بلوچستان میں کلبھوشن یادیو جیسے لوگ لانچ کر رہا تھا‘ یہ پاکستان میں تیزی سے دہشتگردی کا نیٹ ورک پھیلا رہا تھا چنانچہ مودی کی کوشش تھی یہ پاکستان کو اس وقت تک انگیج رکھے جب تک یہ نیٹ ورک مکمل نہ ہو جائے‘ مودی نے یہ سوچ کر بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا‘ یہ وہ تین مقاصد تھے جن کی وجہ سے مودی پیرس اور رائے ونڈ پہنچ گیا اور مودی نے جوں ہی یہ تینوں مقصد حاصل کر لیے یہ پیچھے ہٹ گیا۔
ہم اب بھارتی حکمت عملی کی طرف آتے ہیں‘ انڈیا پاکستان کے ساتھ کیا کر رہا ہے؟ بھارت دراصل پاکستان پر دو جنگی تکنیکس استعمال کر رہا ہے‘ دنیا میں پانچ ہزار سال سے یہ دلچسپ جنگی تکنکیس چل رہی ہیں‘ پہلی تکنیک ’’مارو نہیں زخمی کرو‘‘ ہے‘ ہماری جنگوں کے دوران جب کوئی فوجی مارا جاتا ہے تو فوج کو صرف ایک جوان کا نقصان ہوتا ہے لیکن جب کوئی فوجی زخمی ہوتا ہے تو یہ فوج کو تین جوانوں کے برابر نقصان پہنچاتا ہے‘ کیسے؟ ایک فوجی زخمی ہو کر ناکارہ ہو جاتا ہے۔
دوسرا فوجی جنگ چھوڑ کر زخمی کو کیمپ تک لے جانے میں مصروف ہو جاتا ہے اور تیسرا ان لوگوں کو ’’کور‘‘ دینے میں الجھ جاتا ہے۔ اس کی توجہ بھی جنگ سے ہٹ جاتی ہے چنانچہ ملک کوشش کرتے ہیں یہ عام حالات میں دشمن کے زیادہ سے زیادہ جوانوں کو قتل کریں تا کہ شہروں میں لاشیں جائیں اور ان لاشوں سے خوف پھیلے جب کہ فوجیں جنگ کے دوران دشمن کے زیادہ سے زیادہ فوجیوں کو زخمی کرتی ہیں تا کہ دشمن فوج زخمیوں کو اٹھانے میں مصروف ہو جائے‘ دوسری تکنیک ’’تھکا کر مارو‘‘ کہلاتی ہے۔
جارح فوج کوشش کرتی ہے یہ جنگ کو اتنا پھیلا دے کہ دشمن کی فوج تھک جائے‘ اس کی سپلائی چین ٹوٹ جائے اور جنگی وسائل ختم ہو جائیں‘ بھارت پاکستان پر یہ دونوں تکنیکس استعمال کر رہا ہے‘ یہ خودکش حملے کرا کر پاکستان کو زخمی کر رہا ہے‘ ہم نے دہشتگردی کی جنگ میں 70 ہزار لاشیں اٹھائیں‘ یہ اموات ہیں‘ آپ جب زخمیوں کا تخمینہ لگائیں گے تو آپ پریشان ہو جائیں گے‘ یہ زخمی ریاست کے جذبے کو بھی زخمی کر رہے ہیں اور یہ ریاست پر بوجھ بھی بن رہے ہیں‘ بھارت اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی فوج کو تھکا بھی رہا ہے‘ اس نے ہماری فوج کو افغانستان کے بارڈر پر بھی انگیج کر رکھا ہے‘ کراچی میں بھی پھنسا دیا ہے۔
بھارت نے ہماری فوج کو شہریوں کی چوکیداری پر بھی لگا دیا ہے اور یہ اب ہماری فوج کو ورکنگ بائونڈری اور ایل او سی پر بھی انگیج کر رہا ہے‘ بھارت یہ سلسلہ دو تین سال تک جاری رکھنا چاہتا ہے تا کہ ہماری فوج تھک جائے اور یہ کسی بڑی جنگ کا مقابلہ نہ کر سکے‘ یہ بھارت کی جنگی حکمت عملی ہے‘ آپ یہاں یہ بھی ذہن میں رکھئے ہم جب بھی ان حملوں سے سنبھلنے لگیں گے‘ نریندر مودی ایک اور ’’سرپرائز وزٹ‘‘ کرے گا‘ یہ میاں نواز شریف کو اسلام آباد‘ لندن یا نیویارک میں روک کر گفتگو شروع کر دے گا‘ ہم دوبارہ انگیج ہو جائیں گے اور بھارت اس انگیج منٹ کے دوران نئے مہرے آگے بڑھا دے گا۔
ہمیں ا س صورتحال میں کیا کرنا چاہیے‘ یہ دس ملین ڈالر کا سوال ہے لیکن اس کا جواب بہت آسان ہے‘ میاں نواز شریف مودی کی تکنیک کو مودی پر الٹ دیں‘ یہ بھی سیدھا بھارت جائیں‘ مودی سے ’’ہم کو بھی بات کرنا ہے‘‘ کہیں‘ اس کا ہاتھ پکڑیں‘ صوفے پر بیٹھیں اور اس سے پوچھیں’’ کیاآپ ایٹمی جنگ چاہتے ہیں‘‘ اس کا جواب اگر ناں ہو تو پھر اس سے کہیں آپ یہ حرکتیں فوراً بند کر دیں۔
آپ ایل او سی پر فائرنگ‘ افغانستان میں ٹریننگ کیمپس اور بلوچستان میں بم دھماکے بند کر دیں ورنہ دوسری صورت میں ہم وہ کریں گے جو آج تک کوئی نہیں کر سکا‘‘ ہمارے وزیراعظم بھی بھارتی وزیراعظم کو انگیج کریں اور اس کے بعد اپنی انگیج منٹ کا نتیجہ دیکھیں لہٰذا پلیز ’’ٹاک ٹو ہِم‘‘ مودی کو انگیج کریں‘ برصغیر میں امن ہو جائے گا۔