وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں نہ صرف ایک کامیاب کاروباری شخثیت ہیں، بلکہ وہ ایک ادیبہ بھی ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی کے حوالے سے علاوہ خود بھی اامریکہ کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں۔ ایک اندازے کی مطابق وہ ایک سو 50 ملین ڈالر کی تن تنہا مالک ہیں۔ ان کی ذاتی حیثیت اور شہرت اپنی جگہ، لیکن اب تمام لوگوں کی نظریں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا کے نئے کردار پر لگی ہوئی ہیں۔ کیا امریکہ کی آئندہ خاتون اوّل کا کردار بھی وہی نبھائیں گی؟
35 سالہ ایوانکا لوگوں کی نظروں اور کیمروں کی روشنی کی عادی ہیں۔
نوجوانی کے ابتدائی برسوں میں وہ ایک ماڈل تھی، اور اٹھارہ سال کے بعد کے برسوں میں ان کے شوق اور کاروبار فیشن، بزنس، میڈیا اور اپنی مدد آپ کے مختلف میدانوں تک پھیل چکے تھے۔
لیکن اب جب ان کے والد ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں منتقل ہونے کی تیاریاں کر رہے ہیں تو جتنی چھان پھٹک ایوانکا کی ہو رہی ہے وہ شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایوانکا اور ان کے شوہر جیرڈ کُشنر کو اپنے ساتھ وائٹ ہاؤس میں رکھنا چاہتے ہیں۔
مسٹر ٹرمپ نے نومبر میں اعلان کر دیا تھا کہ کم از کم شروع میں ان کی اہلیہ ملینا وائٹ ہاؤس میں منقتل نہیں ہوں گی بلکہ وہ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے بیرن کے سکول کا سال ختم ہونے تک اس کے ساتھ تک نیویارک میں رہیں گی۔
دوسری جانب ایوانکا ٹرمپ اور ان کے شوہر واشنگٹن کے فیشن ایبل علاقے جارج ٹاؤن میں منتقل ہونے کا سوچ رہے ہیں، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں پیشکش کی ہے کہ وہ اپنا دفتر وائٹ ہاؤس کے اس حصے میں لگا سکتے ہیں جو عموماً خاتون اوّل کے یے مختص ہوتا ہے۔
امریکہ کی خواتین اوّل کے بارے میں ایک کتاب کی مصنفہ، سوزن سوین‘ کہتی ہیں کہ ایوانکا اور ان کے شوہر کے وائٹ ہاؤس میں منقتل ہونے کی بات ایسی ہے جو وائٹ ہاؤس کی روایات سے میل نہیں کھاتی۔ لیکن یہ بات اس لحاظ سے عجیب نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا خاندان ایک ایسا خاندان ہے جسے دارالحکومت واشنگٹن کی سیاسی محفلوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
سوزن سوین کے بقول ’ہر خاتون اوّل کو اپنی نئی حیثیت کو اپنے مخصوص انداز میں ڈھالنا پڑتا ہے۔‘ مثلاً جب اوباما انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے تو اس وقت مشیل اوباما کا بھی خیال یہی تھا کہ وہ اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ شکاگو میں ہی رہیں گی۔
سوزن سوین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اہلیہ کا یہ فیصلہ کہ وہ نیویارک میں ہی رہیں گی، ماضی کی خواتین اوّ ل کی اسی روایت کی عکاسی کرتا ہے کہ معمول کی زندگی جاری رکھی جائے اور جتنا ممکن ہو سکے صدر کے بچوں کو عوام کی نظروں سے دور رکھا جائے۔
اگر ملینا ٹرمپ نیویارک ہی رکتی ہیں تو لگتا ہے کہ خاتون اوّ ل کی ذمہ داریاں ایونکا ٹرمپ کو نبھانا پڑیں گی اور عالمی رہنماؤں اور دیگر شخصیات کی میزبانی عملاً ان کو ہی کرنا ہو گی۔
یہ کوئی اتنی غیر معمولی بات نہیں ہو گی، کیونکہ تھامس جیفرسن، لِنڈن جانسن، جیرالڈ فورڈ اور رونلڈ ریگن سمیت کچھ ایسے صدر ضرور گزرے ہیں جن کے ہاں خاتون اول کی ذمہ داریاں ان کی بیگمات کی بجائے خاندان کے کسی دوسرے فرد کے پاس تھی۔
لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وائٹ ہاؤس میں ایوانکا کا کردار ماضی کی خواتین اوّل سے بڑا ہو سکتا ہے۔ مثلاً اپنے والد کے صدر منتخب ہونے کے بعد جب وہ جاپانی وزیر اعظم کے ساتھ مسٹر ٹرمپ کی ملاقات میں نظر آئیں تو کئی لوگوں نے خفگی کا اظہار کیا تھا۔ اس کے بعد جب گذشتہ دنوں وہ فیس بُک، ایپل اور سلیکان ویلی کی دیگر بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ مسٹر ٹرمپ کی ملاقات میں بھی دکھائی دیں تو تب بھی کی لوگوں کی پیشانیوں پر شکنیں آ گئی تھیں۔
کیا اپنے والد کی پالیسی سازی میں بھی ان کا کوئی کردار ہو سکتا ہے؟
ماضی میں ایونکا بچوں کی نگہداشت، حقوق نسواں اور ماحولیاتی تبدیلی جیسے کچھ ایسے مقاصد کے لیے کام کر چکی ہیں جو کسی وقت ریپبلکن پارٹی کی پالیسی سے ٹکرا سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک کتاب کے مصنف مائیکل کرینش کہتے ہیں کہ جب تک اس سلسلے میں کوئی باقاعدہ اعلان نہیں ہو جاتا، اس وقت تک یہ واضح نہیں ہو گا کہ مسٹر ٹرمپ نے اپنی بیٹی کے لیے کیا کام سوچ رکھا ہے، لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ منتخب صدر نے اپنے خاندان کے افراد کو کاروبار میں ہمیشہ اپنے قریب ترین مشیروں میں شامل رکھا ہے۔