لاہور (ویب ڈیسک) ایک تیز طرار وکیل نے زنا بالجبر کے مقدمے میں مدعیہ اور مظلومہ سے دوران جرح سوال کیا کہ وقوعہ کہاں ہوا؟ اس نے بتایا کمرے میں۔ کمرہ کچا تھا کہ پکا؟ وہ بولی: پکا تھا۔ چھت لینٹر والی تھا یا کڑیوں والی۔ اس نے کہا: کڑیوں والی۔نامور کالم نگار خالد مسعود خان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وکیل نے بڑا نابغہ قسم کا سوال کیا: کڑیوں کی تعداد کتنی تھی؟ ان واہیات اور غیر متعلقہ سوالات سے تنگ آئی ہوئی خاتون نے جل کر کہا: وکیل صاحب! میری تو عصمت لٹ رہی تھی اور عزت برباد ہو رہی تھی۔ آپ کے ساتھ یہ ہوتا تو میں پوچھتی کہ اس حال میں آپ کو عزت کی پڑی ہوتی یا کڑیاں گننے کی۔ پولیس افسران پر مشتمل جے آئی ٹی اپنے بھائی بندوں کو بچانے میں مصروف ہے۔ کسی افسر میں‘ کسی وزیر میں‘ کسی حکمران میں خیر سے یہ اخلاقی جرأت کہاں کہ وہ مستعفی ہو۔ کسی حکمران میں یہ جرأت بھی نہیں کہ وہ سفارشی آئی جی کی چھٹی کروائے۔ ایڈیشنل آئی جی کو پکڑ کر اندر کر دے۔ مظلوم خاندان کو اسلام آباد کی سڑکوں پر ذلیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔ مدعی کے وکیل کو دھمکانے والوں کو نوکری سے فارغ کرے۔ نا مکمل شواہد فرانزک لیبارٹری بھجوانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کرے۔ تھانے میں رعب اور دبدبے کے ساتھ بیٹھ کر گواہوں کو خوفزدہ کرنے والی جے آئی ٹی کے ارکان کی گوشمالی کرے۔ موجودہ شواہد کو بتدریج ضائع کرنےکی کوششوں کا سدِ باب کرے۔ موجود ویڈیوز کی موجودگی کے باوجود ملزمان کو شناخت کرنے میں ناکام افسران سے پوچھ گچھ کرے۔ درجن بھر بیانات بدلنے والے اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف کارروائی کرے۔ دہشت گرد مارنے کا بیان جاری کرنے والے آئی جی سے ثبوت طلب کرے‘ اور سب سے بڑھ کر ذیشان کے بارے یہ ثبوت ہونے کے باوجود کہ وہ دہشت گرد ہے (یہ بھی ابھی مکمل مفروضہ ہے اور پولیس کا یک طرفہ مؤقف ہے) اور عرصہ سے ایسی کارروائیوں میں ملوث رہا ہے‘ اسے پہلے گرفتار کیوں نہیں کیا؟ جب سارے لوگ بشمول ذیشان نہتے تھے تو انہیں زندہ گرفتار کرنے کے بجائے دس فٹ کے فاصلے سے درجنوں گولیاں مار کر قتل کیوں کیا گیا؟ یہ سب سوال اپنی جگہ۔ سب سے بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ ریاست مدینہ کا دعویدار کیا کر رہا ہے؟ بقول اس کے ایسے واقعات پر مہذب ملکوں میں حکمران مستعفی ہو جاتے ہیں۔ کیا استعفیٰ لکھنے کے لیے دو ہفتے درکار ہیں؟ چلیں استعفیٰ نہ دیں مگر آئندہ اس گلے سڑے اور غلیظ طرز حکومت کیلئے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال نہ کریں۔ یہ بڑی مقدس اصطلاح ہے۔ خود کو اس سے دور رکھیں