لاہور(ویب ڈیسک)ڈی ڈبلیو اردو نے اپنے فیس بک پیج پر ایک سروے میں اپنے صارفین سے پوچھا کہ آیا وہ آسیہ بی بی کی رہائی کے فیصلے کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ کرنے والے افراد کو لازمی طور پر گرفتار کیا جانا چاہیے یا کہ ایسے افراد کی گرفتاریاں غلط ہیں۔ اس سروے میں چھ ہزار سے زائد افراد نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان میں سے نوے فیصد نے اس بات کے حق میں ووٹ دیا کہ توڑ پھوڑ کرنے والوں کو لازمی گرفتار کیا جائے۔اس سروے پر ڈی ڈبلیو اردو کو اپنے فیس بک فینز کی جانب سے کافی زیادہ کمنٹس بھی موصول ہوئے۔ ڈی ڈبلیو اردو کے ایک صارف بلال احمد نے لکھا، ’’احتجاج کرنا ہر ایک کا جمہوری حق ہے مگر اس حق کو استمعال کرتے ہوۓ عوام الناس یا پھر اپنے ملک کو اس احتجاج کی آڑ میں نقصان پہنچانا بلکل غلط ہے چاہے وہ احتجاج مذہبی و سیاسی جماعتوں کی طرف سے ہو۔‘‘ایک اور صارف فرید قریشی نے لکھا، ’’حکومت کی سنجیدگی کا پتا اس بات سے چلے گا کہ خادم رضوی اور افضل قادری کے خلاف کاروائی ہوتی ہے یا نہیں؟ اگر صرف عام کارکنان کو پکڑا گیا تو سمجھ جائیے گا کہ بس دکھاوے کی کارروائی ہو رہی ہے۔‘‘ان گرفتاریوں کے مخالف ڈی ڈبلیو اردو کے صارف عبدالماجد گجر نے لکھا، ’’یہ گرفتاریاں غلط ہیں۔ ماضی میں فتنہ فساد برپا کرنے کے بہت سے واقعات ہیں جن کے ملزمان تاحال کھلے عام دندناتے پھر رہے ہیں۔ ان کو نہیں پکڑا گیا ان کو کیوں پکڑا جائے۔‘‘ Raseed Surveyor نامی ایک صارف نے لکھا، ’’ان لوگوں کو بھی گرفتار کیا جائے جو عمران خان کی زیر قیادت پی ٹی وی پر حملہ آور ہوئے تھے اور اس وقت قیمتی املاک کو نقصان پہنچایا تھا، ان کی بھی تصاویر موجود ہیں اگر حکومت ان کے خلاف ایکشن نہیں لے سکتی تو پھر ان لوگوں کو بھی بخشا جائے۔‘‘ہیبت خان نامی صارف نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’سب سے پہلے ان قائدین سے پوچھ گچھ کی جائے جن کے کارکنان نے یہ غلط قدم اٹھایا ہے اور حکومت بھی آئندہ کے لیے قانون سازی کر لے تاکہ کسی بھی احتجاجی موقع پر ملکی و قومی اور عوامی نقصانات کی ذمہ دار متعلقہ جماعت کی قیادت کو ٹھہرایا جائے۔