’’میں کیا کروں؟ میں ترقی کرنا چاہتا ہوں، آگے بڑھنا چاہتا ہوں، اپنے اور ملک کےلیے نام کمانا چاہتا ہوں، پیسہ کمانا چاہتا ہوں، شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا چاہتا ہوں، اس ملک کو لِیڈ کرنا چاہتا ہوں، غریبوں کی مدد کرنا چاہتا ہوں؛ مگر کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ میں کچھ پڑھ نہیں پاتا، فوکس نہیں رہتا۔ مالی حالات ایسے نہیں۔ آپ کوئی طریقہ بتائیں کہ میں کچھ ایسا اچھوتا یا منفرد کروں کہ دنیا سلام کرے۔‘‘
یہ تھا وہ فیس بک میسج جس نے مجھے رات بھر سونے نہ دیا۔ اس جیسے بلامبالغہ درجنوں میسجز اور ای میلز مجھے ہر ہفتے موصول ہوتے ہیں مگر جو فرسٹریشن اور شدت مجھے اس میں نظر آئی، وہ نمایاں تھی۔
ہم میں سے ہر شخص بولنا چاہتا ہے، لکھنا چاہتا ہے، لیڈ کرنا چاہتا ہے، موٹی ویشنل اسپیکر بننا چاہتا ہے، کچھ منفرد کرکےدنیا کو اپنے سامنے سرنگوں دیکھنا چاہتا ہے۔ خواہشات اور امیدوں کا وہ پہاڑ ہے کہ سر ہو کر نہیں دیتا اور جب ان میں سے ایک فیصد بھی پورا نہیں ہوتا تو باقی زندگی دوسروں کو کوستے نکل جاتی ہے کہ کسی نے ساتھ نہیں دیا۔
فیس بک میسج کرنے والے کی عمر سترہ سال تھی۔ میں بہت دیر سوچتا رہا کہ اس بڑھتے ہوئے مسئلے کا حل کیا ہو؟
’’میں کیا کروں؟‘‘ سے پہلے ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ میں کیوں کروں؟ اس ’’کیوں‘‘ میں ’’کیا‘‘ کا جواب چھپا ہے۔ تربیت کی ابتداء نیستی سے ہوتی ہے۔ کچھ نہ کیجیے اور بس اپنے آپ پر کام کرتے رہیے۔ جس دن آپ کسی جوگے ہوگئے تو دنیا آپ سے خود کام لے گی۔
ایک کام کی بات غور سے سنیے۔ دنیا کی ہر وہ تمنا، ترقی کا ہر وہ معیار، آگے بڑھنے کی ہر وہ لگن جس کی نسبت بالواسطہ یا بلاواسطہ اللہ پاک کی طرف نہیں جاتی، وہ کام اگر آپ کو اپنے ربّ سے قریب نہیں کرتا تو اس کا اختتام رسوائی پر ہوتا ہے۔
آپ ایک بڑے فلم اسٹار بن گئے، ساری زندگی عیش و عشرت میں گزری، دنیا و شہرت پاؤں چومتی رہی مگر آخر میں کوئی اسکینڈل بن گیا اور سب کچھ خاک میں مل گیا۔
کوئی بزنس بنایا، پچاس سال لگا دیئے، آخر میں کوئی نالائق اولاد یا رشتہ دار سب کچھ غارت کرگیا۔
بیوروکریسی میں زندگی لگادی۔ بہت نام کمایا، پھر ایک دن بیٹے نے سرِ عام کسی کو گولی ماردی۔
سیاست دان بنے، ملک کی راہنمائی کرتے رہے مگر اپنی نہ کرسکے۔
قلم کار، صحافی بنے، قلم کی تلوار سے پوری زندگی سر قلم کرتے رہے مگر ہر وہ الزام جو دوسروں پر لگاتے رہے، وہ تمام کرتوت اپنی ہی اولاد میں دیکھنے کو ملے۔
ترقی کے اس سراب کی حقیقت، موت یا اس سے بھی پہلے کھل ہی جاتی ہے۔ باقی وہ رہتے ہیں جو اللہ کی راہ میں فنا ہوجائیں۔
آدمی عقیدہ رکھتا ہے، پھر نیت کرتا ہے، پھر عمل اور پھر اخلاص؛ مگر ایک چیز جو اس کے اختیار میں نہیں، وہ قبولیت ہے۔ وہ ربّ کی دین ہے۔ ترقی کی نہیں، قبولیت کی دعا مانگا کیجیے۔ یاد رکھیے، قبولیت کا کوئی نصاب نہیں۔ اجر اور چیز ہے، قبولیت اور چیز۔ جزا اور ہے، قرب اور ہے۔ تنخواہ تو مالک سارے نوکروں ہی کو دیتا ہے مگر ایسا نہیں کہ ہر ایک کی بات بھی مانے۔
قبولیت کے باب میں سزا و جزا، خوشی و ناراضگی، سب قبولیت میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔ بندے کے پاس چوائس ہمیشہ کی طرح ہوتی ہے مگر کسی بھی صورت میں وہ مقبول ہی رہتا ہے۔
کبھی یہ قبولیت گناہ میں لتھڑے کسی عاصی کے بےخیالی میں نکلے آنسو کا بھرم بن جاتی ہے کہ اللہ کا ذکر غفلت میں ہی کیوں نہ کیا جائے، اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ اللہ اپنے ادب کا مزہ ضرور چکھاتے ہیں، تو کبھی یہ قبولیت کروڑوں لٹانے والے کےلیے بھی بےنیاز رہتی ہے۔
عاشق ہمیشہ محبوب سے کم تر ہوتا ہے۔ عاشق کی پوری عمر کی کارگزاری، عشق کی ساری مشقتیں، محبوب کے ایک پل کی بےنیازی سے راکھ… چھٹی ہوگئی۔ کرلو جو کرنا ہے! عجب بات ہے ہم اس مالک کو روز نیاز پیش کرتے ہیں جو بےنیاز ہے۔ آدمی کو ڈرنا ہی چاہیے۔
قدرت کا اصول ہے کہ دعویٰ دلیل مانگتا ہے۔ دعوے نہ کیجیے، سر جھکا کر کام کیجیے اور خوب دعا مانگیے۔ بادشاہ کی عنایت جس دن فقیر پر ہوجائے وہ فقیر نہیں رہتا، بادشاہ کا دوست کہلاتا ہے۔ دنیا تو وہ پاکٹ چینج ہے جو اللہ، بندے سے محبت کے صدقے میں دے دیتا ہے۔ مگر قبولیت قبول کرلے تو بندہ بھی بےنیاز ہو جاتا ہے۔ دنیا لوٹتی ہوئی آتی ہے مگر وہ دیکھتا تک نہیں۔
اپنے پر کام کیجیے، جان چھوڑیئے لیڈرشپ کی۔ خاموشی کو استاد بنالیجیے اور اللہ کے آس پاس رہیے۔ وقت آنے پر کام خودبخود لے لیا جائے گا۔
اور اگر آپ بھی میری طرح نرے نالائق ہیں تو بس اللہ کا ذکر کیجیے اور ہاتھ جوڑ کر بیٹھے رہیے۔ بادشاہ کی رہ گزر ہے، کچلے بھی گئے تو بھی جیت ہے۔
یہ ہے وہ اچھوتا کام، وہ منفرد پروجیکٹ جو دنیا و آخرت میں ضرور ممتاز بنادے گا۔
آپ کے سوالوں کا شکریہ!