پاناما سٹی: پاناما پیپرز میں دنیا کی مشہور اور طاقتور شخصیات کے نام سامنے آنے سے لے کر برازیل اور جنوبی کوریا کے صدور پر لگنے والے الزامات تک 2016کے دوران کرپشن کے کئی حیران کن اسکینڈل بے نقاب ہوئے، جو دنیا بھر کی عوام کے غم و غصے کو بڑھانے کی اہم وجہ بنے۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق اپریل 2016ء میں سر اٹھانے والے پاناما پیپرز اسکینڈل نے دنیا بھر میں ہلچل پیدا کر دی تھی، پانامالیکس میں سامنے آنے والی آف شور کمپنیوں کے مالکان میں دنیا بھر کی کئی مشہور، امیر اور بااثر شخصیات کے نام شامل تھے۔ آف شور ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لافرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی خفیہ دستاویزات میں پاکستان اور بھارت سمیت دنیا کی کئی طاقتور اور سیاسی شخصیات کے مالی معاملات عیاں ہوئے۔
انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹیگٹیو جرنلسٹس کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھا جس میں درجنوں سابق اور موجودہ سربراہان مملکت، کاروباری شخصیات، مجرموں، مشہورشخصیات اور کھلاڑیوں کی آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ سامنے آیا۔ان دستاویزات میں روسی صدر پوتن، سعودی فرمانروا، آئس لینڈ کے وزیراعظم، شامی صدر اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف سمیت چین، ملائیشیا، ارجنٹائن، یوکرائن کے اہم رہنماؤں سمیت140سیاستدانوں اور افسران کے نام شامل تھے۔ اس انکشاف کے بعد دنیابھر کے سیاسی منظرنامے میں کافی الٹ پلٹ دیکھنے میں آئی۔
آف شور کمپنی کے انکشاف کے بعدعوامی احتجاج کے باعث مجبور ہو کرآئس لینڈ کے وزیراعظم کو عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا۔ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اپنے والد کی آف شور کمپنی سے منافع حاصل کیا۔روسی صدر ولادیمیر پوتن کے قریبی رشتے دار کا نام سامنے آیا، جس کے بعد روسی صدر نے یہ دعویٰ کیا کہ پاناماپیپرز ان کیخلاف امریکی سازش ہے۔ارجنٹائن کے صدر ماریکیوماکری کا نام بھی آف شور کمپنیوں سے تعلق میں سامنے آیا۔
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا نام بھی ان کے بچوں کے حوالے سے پاناما لیکس میں سامنے آیا، جس کے مطابق وزیراعظم کے بچے مریم، حسن اور حسین کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔ دیگر مشہور افراد،جن میں دستاویزات افشا ہونے کے بعد بے چینی پیدا ہوئی، ان میں سٹار فٹبالر لیونل میسی، ہانگ کانگ کے فلمسٹار جیکی چن اور ہسپانوی فلم ڈائریکٹر پیڈرو الموڈور کے نام شامل ہیں۔ چین میں صدر شی چن پنگ کے اہلخانہ کی معلومات کی مقامی میڈیا اور آن لائن فورمز پر پابندی نے مبصرین کو اس تشویش میں مبتلا کیا کہ کمیونسٹ پارٹی کے رشتے دار اس کریک ڈاؤن سے صاف بچ گئے۔
ایک حالیہ اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 20 کھرب ڈالر (2000کھرب روپے سے زائد ) سالانہ رشوت کی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن ممالک میں ریاستی سربراہان کرپٹ ہوتے ہیں، وہاں شہریوں میں بھی بدعنوانی کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ رواں سال اگست میں برازیلین خاتون صدر ڈلما روزیف کو مواخذے کے بعد عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ ڈلما روزیف پربڑھتے ہوئے بجٹ خسارے کو چھپانے کیلیے سرکاری اکاؤنٹس میں ردوبدل اور ریاستی آئل کمپنی میں بھی خوردبرد کرنے کے الزامات تھے۔
جنوبی کوریا کی صدر بھی اس سال مواخذے سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ جنوبی کوریا کی حکومت کو ’چوئے گیٹ‘ اور ’چوئے سونامی‘ سکینڈل نے زَد میں لئے رکھا جبکہ جنوبی کوریا کے صدر کی پرانی واقف کار اور مشیر چوئے سون سل کی جانب سے ذاتی مفاد کیلیے حکومتی معاملات میں عمل دخل کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد سے صدر پارک جیون ہے کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد سے جنوبی کورین عوام اور حزب اختلاف میں شدید غم و غصہ دیکھا گیا۔
ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق پر بھی مالی بدعنوانی کے الزامات لگتے رہے۔انھوں نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کرپشن کیخلاف تحقیقات کو بند کر دیا۔ دوسری جانب ہزاروں افراد اس پر احتجاج کرنے سڑکوں پر آئے،جو ان کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما پر بھی متعدد سکینڈلز میں ملوث ہونے کے الزامات سامنے آئے۔ ایک عدالتی حکم کے مطابق ان کو بدعنوانی کے 783 معاملات کا سامنا کرنا چاہیے۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق ان پر ایک بھارتی امیرخاندان سے رشوت لینے کاالزام بھی ہے۔