اسحق ڈار وزیر خزانہ کی حیثیت سے مہارت اور شہرت کے مالک ہیں،انہوں نے چند روز قبل ایک آرٹیکل تحریر کیا جسے قومی ا خبارات وجرائد نے نمایاں طور پر شائع کیا، اس میں عرق ریزی ا ور محنت شاقہ سے کام لیا گیا۔اس آرٹیکل میں جتنے بھی اعدادا و شمار پیش کئے گئے، وہ ظاہر ہے، اسحق ڈار کو زبانی از بر ہیں اور وہ کہیں بھی انہیں فر فر دہرا سکتے ہیں۔
مگر یہ ماننا پڑے گا کہ مذکورہ آرٹیکل انتہائی پڑھے لکھے اور ماہرین کی تفہیم کے لئے تھا، عام آدمی اعدا و شمار کے اس گورکھ دھندے ا ور بھول بھلیوں میں کہیں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ میری اپنی تعلیم معاشیات کے مضمون میں واجبی سی ہے، صرف میٹرک ا ور ایف اے میں یہ مضمون پڑھا ، پڑھنا کیا تھا، رٹا لگانا پڑا، کیونکہ میٹرک گنڈا سنگھ والا ہائی اسکول سے کیا ،اس میںمعاشیات کا کوئی ٹیچر نہیں تھا۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں ایک سے ایک بڑھ کر استاد موجود تھے مگر مصیبت یہ آن پڑی کہ ان کی زبان انگریزی تھی، پروفیسر رشید تو اردو بھی بولتے تھے تو ایسے لگتا تھا جیسے انگریزی ہی بول رہے ہیںحالانکہ وہ میرے شہر قصور کے رہنے والے تھے۔
یہ تمہید ا سلئے لکھی تاکہ قارئین کو اندازہ ہو سکے کہ مجھے بھی عام ا ٓدمیوں کی طرح اس آرٹیکل کو ہضم کرنے اوراس میں سے عام فہم باتیں تلاش کرنے میں دقت پیش آئی۔مگر میںنے دو دن تک کوشش جاری رکھی اور اب اس قابل ہو گیا ہوں کہ ا س کے چیدہ چیدہ نکات بیان کر سکوں۔
میں پھر کہتا ہوں کی منطق کے اعتبار سے یہ آرٹیکل لاجواب ہے اور اسحق ڈار کو لازمی طور پر اسے تحریر کرنے کے لئے ہفتوںنہیں تو کئی دن ضرور لگے ہوں گے، اس آرٹیکل کو ڈکٹیٹ نہیں کرایا گیا،ا سکی ایک نوک پلک سنوارنے پر خودو زیر خزانہ نے وقت صرف کیا، یہ ایک لحاظ سے ا س حکومت کا معاشی، اقتصادی اور مالیاتی چارٹر ہے جس کے ساتھ اسے اگلے الیکشن میں اپوزیشن کے نقادوں کا سامنا کرنا ہے مگرا سحق ڈار نے ایک مضبوط حصار تعمیر کر دیا ہے جس میں بیٹھ کر وہ اپنی عبقری پالیسیوں کا کامیابی سے دفاع کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اسحق ڈار کیا کہنا چاہتے ہیں، جواب ہے کہ معاشی ا ور مالی صورت حال ویسی دگر گوں اور خستہ حالی کا شکار نہیں جیسی اپوزیشن کے جغادری پیش کرتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ میںنے اس مضمون کو الٹی طرف سے پڑھنا شروع کیا تو زیادہ سمجھ آ ٓتی چلی گئی۔ اسحق ڈار نے ا س اعتراض کی دھجیاں بکھیر دی ہیں کہ حکومت نے مہنگے داموں قرضے حاصل کئے ہیں۔ دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ تمام نئے قرضے انتہائی کم شرح پر لئے گئے بلکہ سکوک کا جو اجرا ہوا وہ ملکی تاریخ میںکم ترین شرح پر تھا، اسی سلسلے میں یہ بھی باور کرایا گیا ہے کہ یہ تمام قرضے طویل مدتی ہیں اور ان کی ادائیگی کے لئے قوم کو مستقبل قریب میں بھی فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
اب اگلے نکتے مالیاتی خسارے کی بات کر لیتے ہیں ، موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تو یہ خسارہ نو فیصد کے قریب تھا جو اب کم ہو کر نصف رہ گیا ہے اور نئے مالی سال کے آخر تک اس میں مزید کمی واقع ہو جائے گی۔
اگر بات کی جائے کہ ا س حکومت نے غریب طبقے کو کیا دیا تو اسکا اندازہ ا س امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تین برس قبل اس طبقے کے لئے چالیس ارب مختص کئے گئے تھے تو اب چند برس میں اس رقم کو بڑھا کر ایک سو پندرہ ارب کردیا گیا ۔ یہ اضافہ تین گنا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے غربت کا شکار آبادی کا کس قدر خیال رکھا ہے۔
قرضے بے تحاشہ بڑھ گئے ہیں ، یہ ہے وہ اہم تریں اور مشکل تریں سوال جس کے لئے مجھے لگتا ہے کہ وزیرخزانہ کو خود قلم پکڑنا پڑا ہے۔
اسحق ڈار نے ایک اصولی بات کی ہے کہ جب خسارے کا بجٹ منظور کیا جائے گا تو لا محالہ قرضے بڑھیں گے۔
اسحق ڈار نے صاف کہا ہے کہ بجٹ کی منظوری میں پوری پارلیمنٹ شامل ہے، قومی ا سمبلی اور سینیٹ دونوں ایوان اس کے ذمے دار ہیں، اس لئے اگر ملک پر قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی ذمے دار مشترکہ طور پر قومی پارلیمنٹ ہے، اکیلی حکومت یا اسحق ڈار ذاتی طور پر ہر گز نہیں۔
بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ پیپلز پارٹی جوکہ مین اپوزیشن کاکردار ادا کر رہی ہے اور بڑھ بڑھ کا باتیں بنا رہی ہے، اس کے پانچ سالہ دور میں انیس فی صد سالانہ شرح سے کوئی آٹھ ہزار ارب کے قریب خالص قرضہ حاصل کیا،مگر موجودہ حکومت نے ا سکے مقابلے میں صرف پونے دس فی صد سالانہ ا ضافہ کیا، کہاں پیپلز پارٹی کا انیس فیصد اضافہ ا ور کہاں مسلم لیگ ن کا صرف پونے دس فی صد اضافہ،اس کے پیش نظر کوئی عقل کااندھا ہی یہ الزام لگا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت نے ملک و قوم کو بری طرح سے زیر بار کر دیا ہے۔
کیا ہم اس قابل ہیں کہ جو ادائیگیاں سر پہ کھڑی ہیں، ان سے عہدہ برآ ہو سکیں، اسحق ڈار کا جواب ہاں میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک زرمبادلہ کے ذخائر سے مالا مال ہے جو تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تئیس ارب ڈالر زرمبادلہ موجود ہے، اس خزانے کے ہوتے ہوئے بیرونی قرضوں کی ساتھ ساتھ ادائیگیوں کی توکسی کو فکر ہی نہیں ہونی چاہئے مگر کیا کیا جائے اپوزیشن کے بقراطوں کا جو قوم کو پریشان کرکے اس کی نیند حرام کئے جا رہے ہیں، مگر اسحق ڈار نے جو تسلی دے دی ہے، سکے بعد میں تو قوم کو خواب خرگوش میں مست ہو جانے کا مشورہ دوں گا۔ اگر ملک کے بیرونی قرضوں کی اداییگیاں سابقہ ادوار میں چارا رب ڈالر کے زرمبادلہ کی انتہائی کم شرح پر بھی کی جا سکتی تھیں تو اب تئیس ارب ڈالر کے ہوتے ہوئے ہماری باچھیںکھلی ہونی چاہیئں۔ قوم کو یہ نکتہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مشرف کے تاریک دور میں پانچ سو ملین ڈالر یورو بانڈز اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی واپسی کا بوجھ بھی مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت نے ہی برداشت کیا ہے۔اس پر تو اسے شاباش دے دیں کہ ملک کو جمہوری ا ور معاشی تباہی کے دہانے کی طرف دھکیلنے والے آمر کا بوجھ بھی اس حکومت نے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔
جو بات اسحق ڈار نہیں کر سکے، وہ میں کہے دیتا ہوں کہ اس وقت جو بھی قلیل، وسطی یا طویل مدتی قرضے ہیں، ان کے سلسلے میں کسی ایرے وغیرے کو پریشان ہو نے کی ضرورت کیا ہے، مسلم لیگ ن سن اٹھارہ کا الیکشن جیت کر پھر حکومت میں ہو گی، اس لئے بیرونی قرضوں کے بوجھ کی فکراسے لاحق ہونی چاہیے، آپ اور میںکیوں خواہ مخواہ ہلکان ہو ئے جا رہے ہیں۔
لو جی… میں نے اسحق ڈار کے مضمون پر سرسری نظر ڈالی، اس میں سے بوجھل اعدادوشمار کو ایک طرف کر دیا اور جو سمجھ میں آنے والی بات تھی، آپ تک پہنچا دی، اب اسحق ڈار براہ کرم میرا مضحکہ نہ اڑائیں کہ میں نے ان کے عرق ریزی سے لکھے گئے مضمون کا ستیاناس پھیر دیا ہے۔