اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن میں اراضی کے قبضوں کے کیس پر سماعت ہوئی، بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے کہا کہ آئیکون کا پلاٹ 2005میں پرویز مشرف کی حکومت میں لیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملات نیب کو بھیج دیتے ہیں،اور کراچی میں جو آپ کر رہے ہیں کیا وہ جائز ہے؟ ملک ریاض نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں ساراکچھ سیٹل کرناچاہتاہوں،آپ حکم کریں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ میں نےایک ہزار ارب روپے مانگے تھے وہ دے دیں، ملک ریاض نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میری جائیداد ہے، چاہے تو لے لیں، جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ باغ ابن قاسم کی زمین پرعمارت بنا ڈالی ہے جس پر ملک ریاض نے کہا کہ شکر کریں پاکستان میں70منزلہ عمارت بنی ہے، میں نے وہ زمین ڈاکٹر ڈنشا سے خریدی تھی ، ہم سارا مدعا ختم کرنا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ملک کوچلا رہے ہیں جبکہ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ اس ملک کا مال واپس کریں، زندگی گزارنے کے لئے کتنے ارب چاہئیں، وہ لے لیں، باقی دے دیں، کیس کی سماعت کے بعد زین ملک، ملک ریاض سپریم کورٹ سے واپس روانہ ہو گئے۔دوسری جانب چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں 172 افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر سندھ حکومت گرانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے جعلی بینک اکاونٹس کیس کی سماعت کی تو جے آئی ٹی کے ممبران، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر ملزمان کے وکلا پیش ہوئے۔