لاہور(ویب ڈیسک )سانحہ ساہیوال میں خاتون اور 13 سالہ کمسن بچی سمیت چار بے گناہ افراد کو سی ٹی ڈی کی جانب سے اندھ دھند فائرنگ کر کے قتل کئے جانے کے بعد ملک بھر میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)کی کارکردگی پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں ،سانحہ ساہیوال کی مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو پیش کر دی ہے جبکہ سی ٹی ڈی کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی رائے محمد طاہر سمیت اعلیٰ عہدے داران کو بھی فوری عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے ۔سی ٹی ڈی کے سابق سربراہ رائے محمد طاہر کون ہیں اور انہوں نے ابتک محکمہ پولیس میں کیا ’’کارنامے‘‘ سرانجام دیئے ہیں ؟اہم تفصیلات سامنے آ گئی ہیں ۔انتہائی اہم اور ذمہ دار ذرائع کے مطابق سانحہ ساہیوال میں عہدے سے ہٹائے جانے والے سی ٹی ڈی پنجاب کے سربراہ ایڈیشنل آئی جی رائےمحمد طاہر جعلی پولیس مقابلوں کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں اور ان کا شمار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف کے انتہائی قریب سمجھے جانے والے’’تابعدار قسم کے ‘‘ افسران میں ہوتا تھا۔سی ٹی ڈی سربراہ رائے محمد طاہر اس سے قبل 2013 میں بطور ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ’’خدمات‘‘ سرانجام دیتے رہے ہیں اور اس دور میں ان پر ماورائے عدالت لوگوں کے قتل ،قبضہ گروپوں کے ساتھ مل کر شہریوں کی زمینوں پر زبردستی قبضہ کرنے جیسے کئی سنگین الزامات لگتے رہے ہیں ۔رائے محمد طاہر جب ڈی آئی جی لاہور تھے اس وقت رائے ونڈکے علاقے میں خاتون سمیت پورے خاندان کو حبس بے جا میں رکھنے، مکان پر قبضہ کرنے اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے جیسے الزامات ثابت بھی ہوچکے تھے تاہم اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب کی قربت کی وجہ سے یہ سنگین معاملہ بھی دبا دیا گیا تھا ۔ اکتوبر 2013 میں محکمہ پولیس کی جانب سے خاتون کو خاندان سمیت حبس بیجا میں رکھنے اور قبضہ گروپوں کی سرپرستی کے کیس میں ایڈیشنل آئی جی محمدعملیش کی سربراہی میں ہونے والی انکوائری میں رائے طاہر کو اس سنگین واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشن کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
بعد ازاں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سنگین جرم کی سزا دینے کی بجائے رائے محمد طاہر کو سی ٹی ڈی سربراہ کی ذمہ داری سونپ دی تھی ۔ ایڈیشنل آئی جی محمدعملیش نے اپنی انکوائری رپورٹ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھجوائی تھی تاہم اس وقت بھی قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے کوئی سخت ایکشن نہیں لیا تھا اور انہیں ڈی آئی جی کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے ڈی آئی جی فنانس اینڈ ویلفیئر تعینات کردیا تھا ۔22سال پہلے کراچی میں 70کلفٹن کے قریب اس وقت کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو اور ان کے ساتھیوں کو ’’پولیس مقابلے ‘‘ میں پار کر دیا گیا تھا ،ملکی تاریخ کے اس ہائی پروفائل کیس میں بھی رائے محمد طاہر کا نام آیا تھا جو اس وقت اے ایس پی کلفٹن تھے ،رائے محمد طاہر کو اس کیس میں بھی معطل کر دیا گیا تھا تاہم بعد ازاں انہیں سندھ سے پنجاب ٹرانسفر کر دیا گیا تھا ۔ یاد رہے کہ سی ٹی ڈی سربراہ رائے محمد طاہر رائے ونڈ کے قریبی علاقے راجہ جنگ کے رہائشی ہیں اور ان کے ایک بھائی’’ یوسف بلو ‘‘ قبضہ گروپ اور مخالفین کو پولیس کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں پار کروانے میں کافی شہرت رکھتا ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ رائے طاہر کا شمار سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے انتہائی رازداں افسران میں شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دے کر ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کے عہدے تک لایا گیا۔