’’صدر‘‘ زرداری نے بوڑھے وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کو ہٹا کر بظاہر جوان یعنی قائم علی شاہ سے کم عمر مراد علی شاہ کو وزیراعلیٰ سندھ لگایا۔ مطالبہ قائم علی شاہ کو ہٹانے کا تھا۔ مراد علی شاہ کو لگانے کا نہیں تھا۔ ان کی مراد بر آئی۔ کیا اب سندھ عوام کی مرادیں بھی پوری ہوں گی۔ کوئی ایک مراد ہی پوری ہو جائے۔ آخر عام لوگ کب تک ’’نامراد‘‘ رہیں گے۔
عجیب بات ہے کہ صدر زرداری نے بوڑھے وزیراعلیٰ کو ہٹا دیا مگر وزیراعظم نواز شریف نے ایک بزرگ یعنی بوڑھے شخص کو گورنر لگا دیا۔ کام تو پارلیمانی جمہوریت میں گورنر کا کچھ ہوتا ہی نہیں نہ کبھی وزیراعلیٰ اپنے گورنر کے ساتھ کوئی مشورہ کرتا ہے؟ اکثر لوگ صوبوں کے گورنروں کے نام بھی نہیں جانتے۔ لوگ پنجاب کے نئے گورنر رجوانہ صاحب کا نام بھی نہیں جانتے۔ ایک دفعہ انہوں نے نظریہ پاکستان ٹرسٹ کی ایک تقریب میں سیکرٹری شاہد رشید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ایک میں ہی رفیق نہیں ہوں آج کے اجلاس میں تین رفیق موجود ہیں۔ صدر محفل‘ صدر محمد رفیق نظریہ پاکستان کے وائس چیئرمین ڈاکٹر رفیق احمد اور رفیق رجوانہ محفل میں ہنسی بکھر گئی۔ ہم پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو ڈاکٹر رفیق احمد وائس چانسلر تھے۔ اب وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے مستقل وائس چیئرمین ہیں۔ انہیں ’’وائس‘‘ کے ساتھ کوئی نسبت ہے۔ انہیں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کا اعزازی وائسرائے بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمات اس نظریاتی ادارے کے لیے نمایاں اور اہم ہیں۔
ڈاکٹر عشرت العباد پچھلے 14 برسوں سے گورنر سندھ تھے۔ انہیں صدر جنرل پرویز مشرف نے الطاف حسین کی سفارش پر گورنر سندھ بنایا تھا۔ پھر صدر زرداری کے زمانے میں بھی وہ گورنر سندھ رہے۔ وزیراعظم نواز شریف کے دور حکومت میں ساڑھے تین سال سے گورنر سندھ تھے۔ اب الطاف حسین بظاہر کچھ کمزور ہوئے ہیں تو حکومت کو بھی خیال آیا ہے کہ اگر سندھ میں ایم کیو ایم کی حکومت قائم ہوتی تو اس کی مدت پانچ سال ہوتی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے تین جمہوری حکومتوں کی مدت اقتدار میں گزاری ہے۔ ان کے پاس کیا ’’گیدڑ سنگھی‘‘ ہے۔
اب انہوں نے اعلان کیا ہے کہ میں ایک کتاب لکھوں گا جس کا نام ہو گا جو میں نہیں کہہ سکا۔ یہ تو ثابت ہے کہ جو کچھ آدمی کہہ نہیں سکتا۔ وہ لکھ دیتا ہے۔ اب ڈاکٹر عشرت العباد کی کتاب کا شدت سے انتظار شروع ہو جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ ایسی کتابیں شائع ہونا چاہئیں۔ ایک زمانے میں صدر جنرل ایوب کی کتاب ’’جس رزق سے آتی پرواز میں کوتاہی‘‘ بہت مقبول ہوئی تھی۔ تب صدر جنرل ایوب کے ساتھ کام کرنے والے افسران میں قدرت اللہ شہاب تھے جو بذات خود بہت بڑے ادیب تھے۔ تب ممتاز مفتی قدرت اللہ شہاب اشفاق احمد اور بانو قدسیہ (بانو آپا) کا حلقہ احباب ادبی دنیا میں بہت مصروف تھا۔
میری کئی ملاقاتیں اردو سائنس بورڈ کے دفتر میں اشفاق احمد کے پاس شہاب صاحب سے ہوئیں۔ اشفاق احمد اپنے دفتری معاملات میں ہوتے اور شہاب صاحب میرے ساتھ گپ شپ لگاتے۔ کبھی کبھی مذاق مذاق میں اشفاق صاحب شہاب صاحب سے کہتے کہ آپ مجھے ملنے چلے آتے ہیں اور میرے دفتر میں اجمل نیازی سے باتیں کرتے رہتے ہیں۔ شہاب صاحب میری طرف مسکرا کے دیکھتے اور خاموش ہو جاتے۔ شہاب صاحب کی وفات کے بعد اشفاق صاحب نے ایک بار مجھ سے پوچھا شہاب صاحب کے ساتھ کیا باتیں ہوئی تھیں تو میں بھی مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ ایک بار ’’شہاب نامہ‘‘ کی اشاعت سے پہلے مجھ سے شہاب صاحب نے ایک واقعہ سناتے مشورہ کیا کہ میں اسے کتاب میں شامل کروں یا نہیں…؟ میں نے کہا اگر آپ شامل نہیں کریں گے تو میں اسے اپنی کسی کتاب میں لکھ دوں گا۔ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ آپ اسے اپنی کتاب میں شامل نہ کریں۔ شہاب صاحب نے یہ واقعہ کتاب میں شامل نہیں کیا اور میں بھی اسے نہیں لکھوں گا۔
ابھی ابھی مسلم لیگ کے نہال ہاشمی نے ڈاکٹر عشرت العباد کے دبئی روانہ ہونے کے بعد کہا کہ اب کراچی میں دہشت گردی کی آخری نشانی بھی بیرون ملک چلی گئی۔ وہ اتنے ہی خطرناک تھے تو انہیں جانے کیوں دیا گیا۔ کئی بار گورنر ہائوس سندھ میں نہال ہاشمی کی ملاقات ڈاکٹر عشرت العباد سے ہوئی تھی مگر یہ بات اتنی دیر بعد ہاشمی صاحب کو معلوم ہوئی ہے تو اس میں راز کیا ہے۔ اگر ڈاکٹر عشرت العباد کے بارے میں نہال کو پہلے سے معلوم تھا تو وہ خاموش کیوں رہے۔ نہال ہاشمی سے تفتیش کرنا چاہئے تو ممکن ہے اور بھی کئی باتیں سامنے آئیں۔ میڈیا میں ذکر ہونے کیلئے اس طرح کی سیاسی حرکتیں کی جا سکتی ہیں؟
کئی اہم آدمی نہال ہاشمی کی اس خطرناک بات کو وزیراعظم نوازشریف کی کسی خواہش کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں ایک آدمی 14 سال تک گورنر رہا تو کسی کو اس کیلئے کوئی بات سامنے لانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ ساڑھے تین سال سے نہال ہاشمی کی سیاسی جماعت بھی اقتدار میں ہے۔
یہ بات سب جانتے ہیں کہ ڈاکٹر عشرت العباد الطاف حسین کے خاص آدمی ہیں۔ انہوں نے بظاہر 14 برسوں میں کوئی ایسی بات نہیں کی جو متنازعہ ہو اور مشکوک ہو تو پھر 14 سال تک وہ گورنر ہائوس سندھ میں کیا کرتے رہے۔ تین حکومتوں نے انہیں گورنر کے عہدے پر برقرار رکھا۔ انہوں نے اب مصطفی کمال کی باتوں کا جواب دیا ہے جو انہیں نہیں دینا چاہیے تھا۔ اتنے صابر آدمی تھے تو اب صبر کیوں نہ کر سکے اور اتنی جلد دبئی جانے کی بھی کیا ضرورت تھی۔ یہ باتیں کئی سوال اٹھاتی ہیں۔ ان کا جواب ڈاکٹر صاحب کو دینا ہوگا۔ دیکھیں اب مصطفی کمال کیا کہتے ہیں؟ ڈاکٹر عشرت العباد اپنی فیملی کو بھی ساتھ لے گئے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت