سرگودھا (ویب ڈیسک )جنرل حمید گل 1936 کو سرگودھا میں پیدا ہوئے جبکہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق سوات سے تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور میں حاصل کی اور پھر 1956 کو پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کیا۔جنرل حمید گل کا آرمی کیرئیر بےپناہ کارناموں سے بھرا پڑا ہے جس می سنہ1965 کی جنگ میں بھارت کے خلاف چونڈہ سیکٹر میں ٹینک رجمنٹ کی کمانڈ کرنا اور یاد رہے کہ یہ جنگ جنگی تاریخ میں ٹینکوں کی خوفناک ترین لڑائیوں میں شمار ہوتی ہے۔اور یہ جنگ عظیم میں جرمنی اور روس کے درمیان لڑی جانی والی مشہور ٹینکوں کی لڑائی بیٹل آف کرسک کے بعد دنیا بھر میں ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی سمجھی جاتی ہے۔ چونڈہ کی لڑائی میں دونوں جانب کا بےپناہ نقصان ہوا مگر پاکستان نے کامیابی کے ساتھ اپنی سرحدوں کے دفاع کر لیا۔حمید گل کو سنہ 1978 میں بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دی گی اور اس کے چند سالوں بعد انہیں پاکستان ملٹری انٹیلیجنس کا سربراہ بنا دیا گیا۔ اور پھر سنہ 1989 کو اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی کا سربراہ بنا دیا۔اسی کی دھائی پاکستان کے لئے بہت اہم تھی جس میں پاکستان دو اطراف سے یعنی اپنی مشرقی اور مغربی سرحد کی طرف سے دشمنوں میں گھر چکا تھا۔مشہور اصطلاح ہے کہ آپکے دشمن کا دشمن اپکا دوست ہوتا ہے اس اصطلاح کو استمعال کرتے ہوئے پاکستان نے امریکا کے ساتھ مل کر روس کا مقابلہ شروع کر دیا۔ روس کا اصل مقصد پاکستان کے گرم سمندری پانی تک رسائی تھا اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کو ساتھ ملا کر پاکستان کی مغربی سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع کر دی اور یہاں تک بھی ہوا کہ افغانستان کے جنگی جہازوں نے روس کی آشیرباد کے ساتھ پاکستان کے سرحدی علاقوں کی خلاف ورزی کرتے بلکہ متعدد بار شہری علاقوں پر بمباری بھی کی۔یہ صورتحال پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کے لئے نہایت فکر کا باعث تھی اور انہوں نے اس سے پہلے کہ روس افغانستان کے ساتھ ملک کر پاکستان کے خلاف بھرپور کاروائی کرتا پاکستان نے روس کو افغانستان میں ہی الجھانے کے فیصلہ کیا۔پاکستان نے افغانستان میں اغان مجاہدین کی ایک کمزور مزاحمتی تحریک کو منظم کر کے افغان مجاہدین کو سپورٹ کیا گیا اور روس اور افغانستان کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف روس میں مسلح جہاد کا اعلان کر دیا گیا۔اس سارے پلان میں جنرل حمید گل کا اہم کردار رہا ہے اور جب جنرل حمید گل جنرل اختر عبدل رحمان کی سربراہی میں ISI میں کام کر رہے تھے تو کہا جاتا ہے کہ اس وقت کے چند نامور جنرل جن میں جنرل اختر عبدل رحمان جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل حمید گل جیسے قابل جنرلوں نے روس کے توڑنے کا پلان بنایااور دیوار پر لگے روس کے نقشے پر سرخ قلم سے لکیریں کھینچی اور انہوں نے بتایا کہ روس اس طرح ٹوٹے گا اور کہنے والے کہتے ہیں کہ روس بلکل اسی طرح ٹوٹا اور وہ نقشہ پاکستان آرمی کے پاس آج بھی محفوظ ہے جس کو وہ اپنے نئے آنے والے افسروں کی تربیت اور ان کو مورال کو بلند کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔جنرل حمید گل نے افغان جنگ میں مجاہدین کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور روس کو کاری ضرب لگانے میں کامیاب رہے۔ روس کے خلاف پاکستان آرمی کے جوان بھی مجاھدین کے شانہ بہ شانہ لڑے اور پاکستان آرمی کے ہیلی کاپٹر توپوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھا کر افغانستان میں لے جاتے جو رات بھر روسی افواج پر بمباری کرتے اور صبح ہونے سے پہلے ان توپوں کو واپس پاکستان لے جایا جاتا۔تاریخ میں اس جنگ کو یوں بیان کیا جاتا ہےکہ یہ جنگ افغانستان کی سرزمین پر روس اور پاکستان کے درمیان لڑی گئی۔اور پھر وہ وقت بھی آیا جب دنیا نے دیکھا کہ ایک سپر پاور کس طرح شکست و ریخت کا شکار ہوئی۔اسی کی دہائی میں ہی روس کی شکست اور اس کے دانت کھٹے کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت کو واضح پیغام دینا تھا جو راجیو گاندھی کی سربراہی میں پاکستان پر حملے کرنے کے لئے پر تول رہا تھا.پاکستان نے جنرل حمید گل کی سربراہی میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقیں ضرب مومن کا آغاز کیا جس کا کامیابی سے انقعاد کا سہرا بھی جنرل حمید گل کے سر جاتا ہے۔ جنرل حمید گل کے الفاظ تھے کہ ایک مومن کے لئے سپر پاور صرف اور صرف الله تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے اور میں الله تعالیٰ کی سوا کسی اور کو سپر پاور نہیں مانتا۔