موسم پر کسی کو اختیار نہیں اور سیاستدان کی بات پر کسی کو اعتبار نہیں لیکن قوم ان دونوں کے ساتھ گزر بسر کر رہی ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ وہ اگر ان سے خوش نہیں تو ناراض بھی نہیں۔ موسم جیسا بھی ہو اور جب بھی اپنا کوئی سا رنگ دکھائے خوش آمدید کیونکہ موسم کی آمدورفت پر کسی کو اختیار نہیں اس لیے وہ جیسا بھی ہو قابل قبول اور سیاستدان کیسے بھی موسم میں جو کچھ کہہ دے اس پر کسی کو اعتراض نہیں، اگر اعتراض ہے بھی تو سیاستدان کا کہا ماننا پڑے گا اس لیے کہ حکومت اور حکمرانی سیاست دان کے طویلے میں بندھی ہوتی ہیں، ہمیں شروع دن سے ہی اس کا علم و اعتراف ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ہم سیاستدانوں کی ہر بات مانتے ہیں اور چار و ناچار اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔
عمل کسی مولوی کے وعظ سے متاثر ہو کر نہیں کیا جاتا حکومت کے حکم پر کیا جاتا ہے، انسانوں کی پوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بات اچھی یا جیسی بھی ہو اگر اس کے پیچھے اقتدار ہے تو اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے اور عمل کے بعد حاضری بھی لگوائی جاتی ہے تاکہ حکم کی تعمیل ریکارڈ پر رہے۔ یہ کبھی نہیں دیکھا گیا کہ جس بات یا حکم پر عمل کیا جا رہا ہے وہ جائز ہے یا ناجائز، پسندیدہ ہے یا پسند سے محروم ہے ، اگر اس کے پیچھے حکومت ہے تو یہ درست ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے یا دعویٰ کرے وہ صحیح اور قابل عمل ہے کیونکہ جو بات اقتدار کے منہ سے نکلے وہی درست ہوتی ہے کیونکہ عمل اسی پر ہی ہوتا ہے جس بات کے پیچھے اقتدار کی طاقت نہ ہو اس کی کیا وقعت۔
ہماری پوری پاکستانی تاریخ اقتدار کی اسی خواہش یا عمل کا نمونہ ہے۔ ہمارے ہاں جو بھی اقتدار میں آ گیاوہ جیسا بھی تھا اس کی بات ہی درست اور قابل عمل تھی۔ پاکستان کی تاریخ سے واقف یا جنہوں نے اس تاریخ کو اپنے سامنے بنتے بگڑتے دیکھا ہے وہ نالاں ہیں کہ جس ملک کو خطے کا حکمران بننا تھا وہ ایک کمزور اور محکوم ملک بن گیا اور اس کی تاریخ بے معنی نعروں میں گم ہو گئی یا کسی منافع بخش کاروبار میں ڈھل گئی۔ ہندوستان آزادی کے بعد یا تو ہندوستان بن گیا یا اس کے مقابلے میں ایک اسلامی نام اختیار کر کے پاکستان بن گیا۔
پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان نے سیکولرازم اور جمہوریت کا نعرہ لگایا۔ یہ دونوں آسان اور قبول عام نعرے تھے۔ ہندوستان نے پاکستان کی اسلامیت کا جواب سیکولر ازم میں دیا اور دعویٰ کیا کہ اس ملک کا کوئی خاص مذہب نہیں ہوگا جو کہ پاکستان کا ہے یعنی اسلام۔ اس کے مقابلے میں یہ ملک دنیا کے جدید رواج کے مطابق ایک سیکولر ملک ہوگا جس کا کوئی خاص مذہب نہیں ہوگا یعنی یہ نہ ہندو گا نہ مسلمان بلکہ ایک لا مذہب ملک ہو گا جسے دنیا میں سیکولر ملک کہا جاتا ہے یعنی نہ ہندو نہ مسلمان نہ عیسائی نہ کسی دوسرے مذہب کا پیروکار اس کے لیے سب سے پسندیدہ نام جمہوریت کا لیا گیا جس میں ہر مذہب شامل ہو سکتا ہے اور جس میں ہر نظریہ سما سکتا ہے۔ جمہوریت کا نظریہ جمہور سے لیا گیا یعنی عوام اور عوام کا مشترکہ نظریہ جو ہمیشہ لادینی رہا ہے یعنی جس کا کوئی ایسا دین نہیں جس کی پابندی لازم ہو۔ افراد جو چاہیں اور اپنے لیے جو مناسب سمجھیں وہی نظریہ اختیار کر لیں۔
ہندو ہو جائیں یہودی اور عیسائی ہو جائیں یا مسلمان۔ ہندوستان اس کا ایک بہترین نمونہ تھا جس میں ہر مذہب کے لوگ موجود تھے ان میں عیسائی بھی تھے یہودی بھی ہندو بھی اور مسلمان بھی۔ اس طرح ہندوستان کسی خاص قوم کا ملک نہیں تھا ہر قوم اس میں سمائی ہوئی تھی، تاریخی اعتبار سے مسلمانوں کی اکثریت تھی جو ایک خاص نظریہ کے ماننے والے تھے چنانچہ انھوں نے اپنے مخصوص عقائد اور نظریات کے مطابق پاکستان بنا لیا لیکن پاکستان محض ایک اور ملک بن کررہ گیا، اس میں اسلامیت صرف اس کی آبادی کی اکثریت یعنی مسلمانوں تک رہی ان کا ایک نظریہ ضرور تھا لیکن انھوں نے جو پاکستان بنایا اس میں یہ نظریہ نافذ نہیں کیا اور یہ محض ایک مقبول عام نعرہ تک محدود رہا۔ آج یہی پاکستان ہے جس کا حکومتی نظام تو عملاً سیکولر اور جمہوری ہے لیکن اس کا قبول عام نعرہ اسلام کا ہے اور پاکستان کو ایک مسلمان ملک یا ایک اسلامی ملک سمجھا جاتا ہے۔
یہ پاکستان جو بھی ہے آپ کے سامنے ہے۔ اسے آپ جمہوری بھی کہہ سکتے ہیں اور کوئی اور نام بھی دے سکتے ہیں لیکن جن لوگوں نے اسے ایک اسلامی ملک بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا تھا وہ نام کی حد تک تو ایک مسلمان ملک ضرور ہے اور دنیا میں اس کا شمار مسلمان ملکوں کی صف میں ہوتا ہے لیکن یہ عملاً کچھ بھی ہے نظریاتی مسلمان ملک نہیں ہے۔ اس نے چونکہ اسلامیت کو اختیار نہیں کیا اس لیے یہ ایک غیر مذہبی ملک بن گیا لیکن اس کی آبادی کے لحاظ سے اسے سیکولر ملک نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس ملک کی اکثریت سیکولر نہیں ہے اور مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتی ہے اگرچہ عملاً نہ جانے یہ کیا ہے کیونکہ اس نے اب تک اپنا جامع و مانع تعارف نہیں کرایا۔