ممبئی سانحے کے بعد بھارت نے فوری طور پرا س کا الزام لشکر طیبہ ا ور حافظ سعید پر عائد کر دیا تھا، اس میں ذکی الرحمن لکھوی کا نام بھی شامل تھا، ان دونوں کو پاکستان نے نظر بند کر دیا، ان پر مقدمات بھی چلے مگر کچھ ثابت نہ ہواا ور دونوں بری ہو گئے، حافظ محمد سعید کی رہائی تو عمل میں آ گئی مگرلکھوی صاحب کو بری ہونے کے باوجود رہا نہ کیا گیا۔ اس میں کیا مصلحت تھی، یا یہ کسی کاحکم تھا جسے ٹالا نہیں جا سکتا تھا۔
چند روز قبل حافظ سعید نے ایک میڈیا کانفرنس میں نئے سال کو کشمیر کے طور پر منانے کا اعلان کیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ چھبیس جنوری کو جسے کشمیری ،بھارت کے یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں ، پانچ فروری تک جسے ساری دنیا کے مسلمان کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کے لیے مختص کرتے ہیں، عشرہ کشمیر کا نام دے دیا گیا ہے۔
یہ اعلان بھارت کو پسند نہیں آنا تھا مگرا س پر کارروائی پاکستان میں ہو گئی کہ حافظ سعید اور ان کے پانچ ساتھیوں کونظر بند کر دیا گیا۔ سٹیٹ بنک کی طرف سے ا علانات ا ٓتے رہتے ہیں کہ جماعت الدعوہ ا ور لشکر طیبہ کے بنک اکائونٹ پر پابندی عائد کی جا رہی ہے، اس کے ساتھ فلاح انسانیت بھی پابندیوں کی زد میں ا ٓگئی جو پاکستان میں زلزلہ زدگان ا ور سیلاب زدگان کی خدمت میں ہمہ تن مصروف رہتی ہے، اس تنظیم کواب چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت بھی نہیں، نہ کھالیں اکٹھی کرنے دی جاتی ہیں جس کا سارا فائدہ عمران خان ا ٹھا رہا ہے اور وہ ایک کے بعد ایک شوکت خانم کھڑے کرتا جا رہا ہے، یہ سب چندہ خوری ہے، وہ اس قدر فالتو چندہ جمع کر لیتا ہے کہ باقی کا چندہ بیرو ن ملک سرمایہ کاری میں لگا دیتا ہے ا ورا سکا منافع نجانے ا س کی جیب میں جاتا ہے یا ا س کی مرحومہ والدہ کے نام پر خیرات کر دیا جاتا ہے۔ شوکت خانم کو اعزاز حاصل ہے کہ وہ عمران خان کی والدہ ہیں مگر وہ نہ تو مادر ملت ہیں ، نہ مادر وطن کہ ان کے لئے چندہ خوری کی کھلی چھٹی ہے۔
حافظ سعید کی گرفتاری سے اگر مسئلہ کشمیر حل ہو سکتا ہے تو حافظ صاحب نظر بندی کی قربانی دینے پر فخر محسوس کریں گے، خدا کرے کہ ان کی نظر بندی سے بھارتی کلیجہ اتنا ٹھنڈا ہو جائے اورا سکے غیظ و غضب مین اتنی کمی واقع ہو جائے کہ بھارتی افواج وادی میں معصوم کشمیریوں پر جبر و ستم کا سلسلہ بند کر دیں اور ورکنگ بائونڈری اور لائن آف کنٹرول پر بے گناہ پاکستانیوںا ور کشمیریوں پر اندھا دھند گولے برسانا بند کر دیں ، مگر ابھی تو کل ہی ہمار ی پاک فوج کا ایک جوان اس گولہ باری سے شہید ہو گیا ہے تو لگتا ہے کہ حافظ سعید کی گرفتاری رائیگاں گئی، نہ کشمیریوں پر ستم کی سیاہ رات ڈھل سکی ، نہ پاکستان کے سرحدی علاقوں کے لوگوں کی جاں بخشی ہو سکی۔
پانچ فروری کتنی دور رہ گئی ہے ، صرف تین دن درمیان میں ہیں ،اس روز کشمیریوں کے ساتھ اب کون اظہار یک جہتی کرے گا، کیا مو لا فضل الرحمن جو فرماتے ہیں کہ ان کے بزرگ پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہ تھے۔ ایک زمانہ تھا کہ یوم یک جہتی کشمیر منانے میں مسلم لیگ بھی پیش پیش ہوتی تھی ، پیپلز پارٹی بھی بھٹو کے اس نعر ے کی لاج رکھنے کی کوشش کرتی تھی کہ کشمیر کے لئے ہزار سال تک لڑیں گے، جماعت ا سلامی بھی دینی بھائی چارے کا مظاہرہ کرتی تھی اور تو اورا س مقابلے میں اصلی ایم کیو ایم بھی شریک ہوتی تھی۔ لگتا ہے اس سال اچکزئی اکیلے ہی کشمیریوں کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کریں گے۔ پیپلز پارٹی کا میںنے نام تو لے لیا مگر اس کے ایک لیڈر فرحت اللہ بابر نے چند ورز پہلے یہ مطالبہ کیا تھا کہ حکومت پاکستان کالعدم تنظیموں کے خلاف حقیقی کارروائی کرے، جو ڈان لیکس میںموجود تھا اور وہی ہو کر رہا جس کی طرف خبر میںاشارہ کیا گیاتھا کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف پابندی عائد کی جائے، اب لشکر طیبہ کے بعد جیش محمد کی باری ہے مگر شاید ہم اس کے خلاف کارروائی نہ کر سکیں کہ ہماری حکومت کا بہترین دوست چین اس تنظیم پر پابندی کی قرارداد کو ٹیکینکل سطح پر دو مرتبہ ویٹو کر چکا ہے۔ ایک کالعدم تنظیم ایسی ہے جس کا نام میںنہیں جانتا اور نہ جاننے کی خواہش ہے مگر پنجاب حکومت پر الزام ہے کہ یہ بھی اس کالعدم تنظیم کے لیڈر کو انتخابی ٹرک پر بٹھا کر مسلم لیگ ن کے لئے ووٹ مانگتی ہے ، راناثنانے کہا تھا کہ اس شخصیت کے حلقے میں انہی کے ووٹ تھے، چنانچہ یہ تو ایک سیاسی عمل کا حصہ تھا۔ جو کام حکومت خود کرے، اس کیلئے جواز تلاش کر لیتی ہے۔
اس ملک میں کالعدم جماعتیں تو بہت ہیں، نیپ پر پابندی لگی تھی مگرا س نے نام بدل لیا اور یہ اے این پی بن گئی اور کئی بار حکومت میں بھی رہی، اس کے لیڈراسفند یار امریکہ کے مہمان بھی رہے۔پابندی مہاجر قومی موومنٹ پر بھی لگی مگراس نے بھیس بدل کر متحدہ قومی موومنٹ کا نام اختیار کر لیا اور بھی ا س طرح کے کتنے ہی کیس ہوں گے، مشرف دور میںپیپلز پارٹی کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ تھی اس نے قانون کو چکمہ دیااور پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین اور پیٹریاٹ کے نام سے دو گروپ بنا کر الیکشن بھی لڑااور پارلمینٹ میں پہنچ کر قومی خزانے سے مراعات بھی حاصل کیں۔آج بھی پارلمینٹ میں پی پی پی پارلیمنٹرین کے نام ہی سے فروکش ہے، یہ پارٹی دوسری کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام کرنے کا طعنہ کیسے دے سکتی ہے۔ اس پارٹی کے دو حصے ہیں ، ایک کے لیڈر ابا حضور زرداری صاحب اور دوسری کے لیڈر برخوردار بلاول محترم۔ ویسے قائد اعظم کی مسلم لیگ نے گرگٹ کی طرح کتنے رنگ بدلے، ان کو کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا۔
حافظ سعید تو اندر کر دیئے گئے اور شاید اب اندر ہی رہیں الا یہ کہ ا مریکی عدالتوں کی نظیر کو سامنے رکھ کر ہماری عدلیہ ا ن کو کوئی ریلیف دے دے۔ مگر حکومت اور دیگر سیاسی پارٹیا ںیہ تو بتائیںکہ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لئے ان کے پاس فارمولا یا حکمت عملی کیا ہے۔ کیا وہ کشمیر کو سرے سے بھلا دینے کی پالیسی اختیار کرنا چاہتی ہیں۔ آج بھارت کے دبائو پر ہم مقبوضہ کشمیر کو اپنی زبان پر نہ لانے کا عہد کر لیں ، کل کو وہ آزاد کشمیر ، پھر گلگت ا ور بلتستان بھی مانگے گا اور ا س کے ایک وزیر نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ سندھ کے بغیر بھارت نامکمل ہے، سکھ یہ نعرہ لگا سکتے ہیں کہ مغربی پنجاب کے بغیر مشرقی پنجاب نامکمل ہے، اس لئے کہ ان کے گورو بابا نانک جی کی جنم بھومی مغربی پنجاب میں ہے، باقی گرو بھی اسی مغربی پنجاب میں دفن ہیں اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مڑھی بھی مغربی پنجاب میں ہے تو ہم کس کس علاقے سے دستبردار ہوتے چلے جائیں گے، کیا ہمارا حشر وہ نہیں ہو گا جو ہمارے مہمان محمود عباس کے ملک فلسطین کا ہو چکا ہے۔جو ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہیں۔ ایک غیر ملکی اور وہ بھی فلسطینی مہمان کی موجوددگی میں کیا حافظ سعید کی نظر بندی ضروری تھی، کیا ہم محمود عباس کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ بھی اسرائیل کی بالادستی کے سامنے اسی طرح جھک جائے جیسے ہم مہا بھارت کے مہاراجہ کشن کے جانشین کے سامنے جھک گئے ہیں۔