لاہور (ویب ڈیسک) نجی ٹی وی چینل میں بحریہ ٹاؤن میں بڑی دیہاڑیوں سے متعلق بتایا گیا کہ ملک ریاض کو ایم ڈی اے کی 11ہزار ایکڑ زمین کراچی کے درمیان دی گئی جس کے بدلے میں تھر میں کنال زمین 5ہزار روپے کے حساب سے لی گئی۔جب کہ نیب کے مطابق،
ایم ڈی اے کی 11ہزار ایکڑ زمین کی قیمت 19سو ارب روپے ہے۔جو کہ بعد میں راؤ انوار کے زریعے سے ارد گرد کی زمینوں پر قبضہ کر کے 45 ہزار ایکڑ بن گئی۔اسی متعلق گفتگو کرتے ہوئے معروف صحافی سمیع ابراہیم کا کہنا ہے کہ یہ سارا کا سارا معاملہ بحریہ ٹاؤن اور ملک ریاض سے جڑا ہے۔پاکستان کا کوئی میڈیا ملک ریاض کے خلاف بات نہیں کرتا۔وہ تو چیف جسٹس نے ایک سماعت کے بعد کہا کہ کل جو دوران سماعت باتیں ہوئیں وہ کسی میڈیا نے رپورٹ نہیں کی۔ملک ریاض وہ واحد شخص ہیں جو کہتے ہیں کہ میں فائلوں کے نیچے پہیہ لگا دیتا ہوں اور فائلیں پھر دوڑتی ہیں تو انہیں کون پکڑے گا؟۔تمام سیاسی جماعتوں کا ملک ریاض سے تعلق ہے۔نواز شریف، حمزہ شہباز،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے رہنما بھی ان کے جہاز میں ہوتے ہیں۔ ملک ریاض تو پورے ملک کے مالک ہیں۔سمیع ابراہیم نے مزید کہا کہ ملک ریاض نے آصف زرداری کے ساتھ مل کر سندھ میں کرپشن کی۔ انہوں مہنگی زمین خریدی اور بدلے میں انہیں سستی زمین دے دی گئی۔نیب کو ان تمام معاملات کی تحقیق کرنی چاہئیے کہ ایک شخص کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آیا؟
لیکن ملک ریاض کو تو جو ہاتھ لگائے گا اس کے ہاتھ کاٹ دئیے جائیں گے۔کسی میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ملک ریاض کو ہاتھ ڈالے۔ہم چیف جسٹس آف پاکستان کو سلام کرتے ہیں جنھوں نے اس معاملے کو اٹھایا۔ورنہ یہاں تو کئی محفوظ نہیں ہے۔یہاں تو فیصلہ آنے سے پہلے ججوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔سمیع ابراہین نے پروگرام میں موجود صحافی کو کہا کہ ملک ریاض کے خلاف کاروائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے پہاڑ کو ہلانا، آپ خود بھی پھنسیں گے اور ہم بھی جان سے جائیں گے۔ جبکہ دوسری جانب معروف صحافی صابر شاکر کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کی جگہ پیپلزپارٹی یا ن لیگ ہوتی تو وہ تقریبا ساری سیٹیں جیت لیتی۔ تحریک انصاف کی قیادت نے ضمنی انتخابات میں کوئی مداخلت نہیں کی اس کے برعکس دوسری جماعتیں حکومت میں ہوتی تو متعلقہ حلقوں میں بڑے بڑے اعلانات کرتی۔ تفصیلات کے مطابق معروف صحافی صابر شاکر کا حالیہ ضم،نی انتخابات سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کی پلاننگ اچھی نہیں تھی۔ پی ٹی آئی کو جس طریقے سے میدان میں اترنا چاہئیے تھا وہ اس طریقے سے میدان میں نہیں اترے۔دوسری بات یہ کہ حالیہ ضمنی انتخب ایک غیر روایتی الیکشن تھا۔
کیونکہ اگی حکمران جماعت کی جگہ ن لیگ یا پیپلز پارٹی ہوتی تو نتیجہ ان کے حق میں آنا تھا۔ کیونکہ دونوں جماعتوں کی طرف سے حلقے میں نوکریوں کا اعلان کیا جاتا۔گیس کے کنکشن دئیے جاتے۔لیکن ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی قیادت ان حلقوں میں نہیں گئی اور نہ انتخابات میں کوئی مداخلت کی۔ جب کہ دوسری طرف وزیراعظم عمران کا کہنا تھا کہ ضمنیانتخابات میں شکست کا اندازہ تھا۔ حکومتی امور میں مصروفیت کی وجہ سے عوام سے رابطے میں خلا آیا جسے اپوزیشن نے پر کیا،حکومت نے کسی سطح پر مداخلت نہیں کی اس لیے پہلی بار شفاف انتخابات ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان کو بتایا گیا کہ بعض نشستوں پر شکست کی وجہ پارٹی کے اندرونی اختلافات تھے۔جب کہ الیکشن مشن کے ضابطہ اخلاق کی پاسداری کرتے ہوئے وزراء نے اپنے پارٹی امیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی حکومت نے حلقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔ شرکاء نے اتفاق کیا کہ پاک فوج سمیت دیگر اداروں نے غیر جانب دارانہ اور شفاف انتخاب کو یقینی بنایا۔ اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ پہلی مرتبہ کسی بھی قسم کی مداخلت کے بغیر مکمل شفاف ضمنی انتخاب ہوئے جس میں حکومت نے کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کی۔