کراچی ;پاکستان پیپلز پارٹی کے سنیئر رہنما چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے ساتھ مشاورت میرے لئے بڑا اعزاز ہوگا ،مولانا فضل الرحمٰن کو ایلچی بنا کر بھیجا گیاوہ پرنسپل بن گئےان کے کردار کو سنجیدہ لہجے میں نہیں لیا جا سکتا ،مجھ پر شہید بے نظیر بھٹو
اور آصف زرداری کے بہت احسانات ہیں،1947 ءسے میں سیاسی گرفتاری میں دھنسا ہوا ہوں جب میری والدہ نے گرفتاری پیش کی میں ایک سال کا تھا والد اور دادا گرفتاری دے چکے تھے قائد اعظم کی ڈائریکٹ ایکشن کال پر سیاست کی نشیب و فراز بہت آئے زیادہ تر عرصہ اپنی زندگی کا اپوزیشن میں گزار ہے۔ وہ جیو کے پروگرام ”جرگہ “ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔اُن کا مزید کہنا ہے کہ اُس کے ساتھ وکالت کا بھی ایک درجہ برقرار رکھا ہے کیونکہ مارشل لا کے زمانے میں گرفتار ہونے کے بعد پتہ نہیں ہوتا تھا کہ کتنی معیاد ہے کب رہا ہوں گے لیکن اُس میں بھی آپ کا کلائنٹ پھر بھی آپ پر بھروسہ کرتے ہیں یہ اعتماد حاصل رکھنا آسان نہیں ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جب معذول ہوں اور وہ انتخاب کرے جب اپنی مشکل پر کسی وکیل کو تو انہیں اعتزاز احسن ہی ملے میں پراجیکٹ کر رہا ہوں اپنے آپ کو میں ایک امیدوار ہوں اس لئے پروجیکشن کا میرا جائز حق ہے ۔سب سے بڑی کامیابی ہے کہ آپ کا حریف جوہے وہ بھی اپنے وکیل کے طور پر آپ کی طرف دیکھے۔ایک سوال عام طور پر تاثر یہ ہے کہ جس کا کوئی کام نہیں ہوتا وہ پاکستان کا صدر بنتا ہے تو سوال یہ ہے کہ آپ اتنے کام کے آدمی ہیں
آپ بیکار کیوں بن کے بیٹھنا چاہتے ہیں اس کے جواب میں اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پہلی بات واضح کردوں کہ اس حوالے سے میرا انتخاب میری جماعت نے کیا میں اس میٹنگ میں نہیں تھا نہ ہی مجھے اُس کا علم تھا مجھے آصف زرداری کا فون آیا کہ پیپلز پارٹی آپ کا نام صدارتی امیدوار کے حوالے سے دینا چاہتی ہے دوسری بات یہ ہے کہ صدرکے پاس زیادہ اختیارات نہیں ہیں اٹھارہویں ترمیم کے بعد لیکن عہدے کا مقام ایسا ہے کہ آئین کی پاسداری کو ایک مورل پریشر کے ذریعے آن کورس رکھ سکتا ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ مشاورت۔میرے لئے یہ بڑا اعزاز ہوگا۔ ممنون حسین نواز شریف کے تابعدار تھے اُتنے ہی عارف علوی بھی عمران خان کے احسانمند ہوں گے اُن کے ساتھ منہ کھولنا ابھی تک اس طرح کی تاریخ نہیں رہی اس کے جواب میں اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ مجھ پر شہید بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بہت احسانات ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ محسن پر بہت بڑا احسان یہ ہوتا ہے کہ آپ اُس کے سچ بات اور حقیقت بیان کرتے رہیں۔ جب تک ججز بحال نہیں ہوئے تھے میں نے 2008 ء کا الیکشن نہیں لڑا تھا نواز شریف اور پیپلز پارٹی کا میں مشترکہ امیدوار بن سکتا تھا پر میں نے الیکشن نہیں لڑا پرویز مشرف کی جانب سے بڑی تکرار سے پیشکش کی گئی وزیراعظم بننے کی پر میں نے وہ نہیں کیا ۔
زرداری صدر تھے جس وقت میں لانگ مارچ لے کر اسلام آباد کی جانب آیا جو گوجرانوالہ سے پہلے جنرل کیانی کا فون آگیا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے اعلان کردیا کہ سب جج بشمول افتخار محمد چوہدری بغیر کسی مائنس ون فارمولے کے بحال ہوں گے۔ آپ کے اُس رول کے بعد شاید آپ آصف زرداری کے پسندیدہ نہیں رہے تھے اب آصف زرداری نے آپ کو کیسے صدارتی امیدوار بنا دیا اس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ 2013 ء میں نون لیگ کی گورنمنٹ بننے کے بعد دو اہم عہدے تھے دینے کے لئے ایک خورشید شاہ کو اُمیدوار بنایا لیڈر آف دی اپوزیشن نیشنل اسمبلی میں اور دوسرا تھا لیڈر آف دی اپوزیشن اِ ن سینٹ آصف زرداری نے لیڈر آف دی اپوزیشن اِ ن دی سینٹ مجھے بنایا۔ آصف زرداری کے احسان بہت سے ہیں اُن کے سامنے میں نے بھرپور اصرار کرتے ہوئے کہا کہ آپ افتخار محمد چوہدری اور باقی ججز کو بحال کریں ورنہ ہم اپنی موومنٹ چلاتے رہیں گے۔ وکلا کی جو نشستیں ہوتی تھیں اُن میں نیچے سے مطالبہ ہوتا تھا کہ آپ پیپلز پارٹی چھوڑ دیں اور میں کھڑا ہو کر کہتا تھا کہ میں پیپلز پارٹی نہیں چھوڑ سکتا وہ میرے خون میں ہے۔ میں پارٹی میٹنگ میں اکثر اختلافی آواز ہوتا ہوں۔اگر جیت یقینی ہوتی تو پھر بھی آصف زرداری آپ کو اُمیدوار بناتے اسکے جواب میں انہوں نے کہا کہ بالکل میرا خیال ہے اور میں آپ کو بتاؤں کہ میں بھی یہ بات ہلکے انداز میں اکثر ٹی وی پر کہہ چکا ہوں پیپلز پارٹی کی دو ٹیمیں ہوتی ہیں اے ٹیم گورنمنٹ کے لئے اور بی ٹیم اپوزیشن کے لئے میں اپوزیشن والی ٹیم میں ہوں ۔ اگر اپوزیشن متحد ہوتو ہمارے حساب کتاب کے مطابق ہم برتری رکھتے ہیں عارف علوی سے ۔جہاں تک اپوزیشن کی تقسیم کی بات ہے ۔