لاہور ایک بہت انوکھا شہر ہے۔ اس میں عجیب طرح کی کشش ہے۔ جو ایک دفعہ لاہور آ گیا پھر اس کے لیے یہاں سے واپسی مشکل ہوگی۔ اس کی فضاؤں میں تاریخ کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہ شہر قدآور شخصیات سے مالامال رہا ہے۔ علم و ادب، سیاست، صحافت، فلم، آرٹ اس کی گھٹی میں پڑے ہیں۔ ان دنوں پوری دنیا میں قحط الرجال ہے اور یوں لاہور بھی اس کی زد میں ہے لیکن ایک وقت تھا کہ اس کی ٹھنڈی سڑک (مال روڈ) پر چہل قدمی کرتے ہوئے قدم قدم پر زندگی کے مختلف شعبوں کے آئیکون سے ملاقات ہوتی تھی۔ میں بہت زیادہ پرانی بات نہیں کر رہا صرف تیس چالیس سال پہلے تک کی بات کر رہا ہوں، اس سے پہلے تو اس شہر کا آسمان چاند ستاروں سے بھرا رہتا تھا،اس کا اندازہ لگانا ہو تو ایم آر شاہد کی تحقیقی کتاب جس پر انہیں گزشتہ برس حکومت پاکستان نے تمغہ امتیاز سے نوازا ہے، کا مطالعہ کریں۔
انہوں نے لاہور کے قبرستانوں میں مدفون مشاہیر پر ریسرچ کی ہے، ایک ایک نام سامنے آتا ہے اور پڑھنے والا خوشگوار حیرت سے دوچار ہوتا ہے کہ اچھا یہ خزانہ بھی لاہور میں دفن ہے۔ آج بھی اس شہر میں ایسی بہت سی شخصیات ہمارے درمیان موجود ہیں جو اس شہر کی عظمت رفتہ اور حال کا پتا دیتی ہیں۔ مجھے انڈیا کے مختلف شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہے وہاں لاہور کا تصور ایک طلسمی شہر کا ہے، لوگوں نے اس کے حوالے سے اپنے ذہن میں بہت خوبصورت اور اسرار بھرے خواب سجا رکھے ہیں۔ وہ یہ شہر دیکھنے کے متمنی ہیں، ان میں جو اپنی خواہش کی تکمیل میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ واپس جاکر اپنی حیرت اور خوشی کے پھول دوسرے دلوں میں بھی کھلانے لگتا ہے۔ لاہور کی مجلسی زندگی اس کے قہوہ خانوں سے آباد تھی۔ ایک وقت تھا اور یہ بھی کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، مال روڈ پر واقع قہوہ خانے مشاہیر کی بیٹھک تھے،یہاں کافی ہاؤس تھا، چائنیز لنچ ہوم تھا، شیزان تھا، گارڈینیا تھا، لازڈر تھا اور ان کے علاوہ بہت سے ریستوران تھے جہاں شام ہوتے ہی بلکہ دن کے مختلف اوقات میں بھی ادیب، شاعر، صحافی، سیاستدان، اہلِ قلم، اہلِ فلم، مصور اور موسیقار آنا شروع ہوتے اور قہوہ خانوں کے درودیوارا ن کی گفتگو سے مہک اٹھتے۔ لوگ انہیں دیکھنے کے لئےباہر کھڑے ہوتے رہتے تھے۔ فلم اسٹوڈیو قیامِ پاکستان سے پہلے بھی بہت اہمیت کے حامل تھے۔ لاہور کے قہوہ خانوں میں سے دو ایسے بھی ہیں جن سے محروم ہوئے ابھی بہت کم وقت گزرا ہے۔ ان میں ایک پاک ٹی ہاؤس تھا جس کی یاد برصغیر پاک وہند کے ادیبوں دانشوروں میں آج بھی ایک کسک کے ساتھ زندہ ہے۔ اس کے مالک سراج مرحوم تھے جو لاہور کی تہذیبی زندگی کا ایک جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے زاہد نے اپنے والد کی میراث کو سنبھالا دینے کی کوشش کی لیکن چائے کے ایک کپ پر سارا دن گزارا کرنے والے گاہکوں سے اس قہوہ خانے کے اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے تھے۔ یہ تہذیبی مرکز بھی بند ہوگیا مگر خدا کا شکر ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی توجہ اس طرف مبذول کرائی گئی تو اس کی تعمیر نو ہوئی اور اس کے افتتاح کے لئے خود وزیراعظم تشریف لائے۔ میں انہیں ایک ایک ادیب کے پاس لے کر گیا اور اس کا تعارف کرایا۔ اب یہ ٹی ہاؤس پہلے سے کہیں بہتر حالت میں ادیبوں کی ’’ملکیت‘‘ ہے۔ ایک اور ریستوران شیزان تھا جو بلوائیوں نے جلا کر راکھ کردیا۔
میں نے اوپر کی سطور میں جن قہوہ خانوں کا ذکر کیا، ان میں سے سوائے پاک ٹی ہاؤس کے سب کے سب بند ہوچکے ہیں۔ اور اب پورے شہر میں کوئی اور قہوہ خانہ ایسا نہیں ہے جہاں مختلف علوم و فنون کے لوگ شام کو اکٹھے ہوں اور یوں انہیں باہمی مکالمے کا موقع مل سکے۔ اور جہاں تک لاہور کی تہذیبی زندگی کا تعلق ہے اسے اس شہر کے زندہ دلوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ میلوں ٹھیلوں کا شہر ہے، کھابوں کا شہر ہے، یہ آرٹ گیلری کا شہر ہے اس کی تفریح گاہیں بھی آباد ہیں اور عبادت گاہیں بھی۔ اور سب سے اہم بات لاہوریوں کی زندگی کے حوالے سے وہ اپروچ ہے جس کے سبب یہ ہر حال میں خوش رہتے ہیں۔ بےتکلفی ان کے مزاج میں شامل ہے، یہ پہلی ملاقات میں ہی اجنبیوں سے بھی بے تکلف ہو جاتے ہیں، بذلہ سنج ہیں،جملے باز ہیں، لاہوریے بول بچن کے بھی چیمپئن ہیں، ان کی شخصیت کا ایک پہلو پھنے خانی بھی ہے۔ لاہوریے تعصبات سے پاک ہیں یہاں لسانی امتیاز نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی؎
جو آئے،آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
شہر کے بیچوں بیچ ایک نہر بہتی ہے جس کے دونوں اطراف میں گھنے درخت ہیں۔ کئی مقامات پر ان درختوں کی شاخیں آپس میں مل جاتی ہیں اور یوں سڑک پر ہریالی کی چھت سایہ فگن ہوجاتی ہے۔ لاہوریے گرمی کے موسم میں نہر کے پل پر سے پانی میں چھلانگ لگاتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کئی ستم ظریف تو یہ حرکت دھوتی باندھ کر بھی کر گزرتے ہیں۔ لاہور یونیورسٹیوں کا شہر ہے،ادب اور دیگر فنون لطیفہ کے کئی ادارے یہاں قائم ہیں۔ یہ داتا کی نگری ہے، یہاں اقبال کا مزار ہے، یہاں سلاطین مٹی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں اور یہاں دیدۂ بینا رکھنے والے وہ لوگ بھی محو خواب ہیں جن کا فیضانِ نظر صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ لاہور کی ایک پہچان اس کی فوڈ اسٹریٹس بھی ہیں۔ فورٹ روڈ والی فوڈ اسٹریٹ مزارِ اقبال اور حضوری باغ کے درمیان میں واقع ہے اور یوں تہذیب اور تاریخ ایک جگہ جمع ہو گئی ہیں۔ جی تو چاہتا تھا ایسی کچھ مزید باتیں لاہور کے بارے میں بتاؤں مگر بات لمبی ہو جائے گی۔ آخر میں صرف ایک بات کہوں گا پاکستان کے سارے شہر ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں مگر ہے کوئی شہر میرے لاہور جیسا؟