کابل: افغان حکومت کی جانب سے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام سروس معطل کردیں گئیں جس کے خلاف سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔
وزارت ٹیلی کمیونیکیشن کے ترجمان نجیب ننگیالے نے غیر ملکی خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ابھی تک سرکاری سرپرستی میں چلنے والا سلام نیٹ ورک واحد انٹرنیٹ فراہم کرنے والا ادارہ ہے جو یکم نومبر سے 20 نومبر تک پابندی کے احکامات پر عمل کر رہا ہے۔خیال رہے کہ بین الاقوامی سطح پر مشہور میسجنگ کمپنیاں واٹس ایپ اور ٹیلی گرام، فیس بک کی ذیلی کمپنیاں ہیں۔عام طور پر افغان طالبان اپنے بیانات واٹس ایپ سروس کے ذریعے میڈیا تک پہنچاتے ہیں جب کہ داعش آپس کے روابط کے لیے ٹیلی گرام سروس کا استعمال کرتی ہے۔نجیب اللہ ننگیالے نے کہا کہ یہ حکومتی اقدام اظہار رائے کی آزادی پر قدغن نہیں کیونکہ انٹرنیٹ صارفین کو فیس بک اور ٹویٹر استعمال کرنے کی اجازت ہے جہاں وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔
ٹیلی کمیونیکیشن کے قائم مقام وزیر شہزاد اریوبی نے واٹس ایپ اور ٹیلی گرام سروس بند کرنے کے اقدام کو غیر اطمینان بخش سروس کی وجہ قرار دیا۔شہزاد اریوبی نے مزید کہا کہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرام سروس میں آنے والی تیکنیکی خرابیوں کو دور کرنے کے لیے وزارت ٹیلی کمیونیکیشن اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام ایک نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانے پر غور کر رہے ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق افغانستان میں تقریبا 80 لاکھ لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہے اور زیادہ تر افراد اسمارٹ فونز کے ذریعے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں۔
واٹس ایپ اور ٹیلی گرام سروسز استعمال کرنے والے صارفین نے حکومتی اقدم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے پر حملہ قرار دیا ہے۔ایک فیس بک صارف نے کہا کہ واٹس ایپ اور ٹیلی گرم سروس کی بندش افغان حکومت کی جانب سے فاصلاتی دنیا کو اپنے کنٹرول میں لانے اور چیزوں کو سینسرکرنے کا آغاز ہے