ہم آپ کو اپنی خوشی میں شامل کرنا چاہتے ہیں۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ ایک طویل جد وجہد کے بعد بالآخر ہمیں فیس بک پر ایک عدد گرل فرینڈ مل گئی ہے۔ بہت سے لوگوں کو زندگی بھر یہ مسرت نصیب نہیں ہوتی۔ وہ عموماً اکیلے یا پھر محض بیوی پر گذارا کرتے ہیں۔ مگر ہماری قسمت کا ستارہ ایک دم سے چمک اٹھا ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ ابھی جب ہم نے فیس بک کھولی تو ہمیں ایک عدد فرینڈ ریکویسٹ آئی ہوئی تھی۔ ہماری بلکہ پاکستان کے تمام مردوں کی یہ عادت ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنی فرینڈ ریکویسٹ کو ہی چیک کرتے ہیں۔ چناچہ ہم نے بھی چیک کیا۔ خوشی کے مارے چیخ ہی نکل گئی۔ وہ فرینڈ ریکویسٹ گل نامی ایک لڑکی کی تھی۔
حقیقی زندگی میں آج تک کسی لڑکی نے ہمیں منہ نہیں لگایا۔ تو ہم نے تلاش زن میں فیس بک کا رخ کیا۔ اس تلاش میں ہم نے فیس بک کے لاتعداد گروپ اور پیجز جوائن کیے ہوئے ہیں اور ہر زنانہ نام کو بے دھڑک فرینڈ ریکویسٹ بھیج دیا کرتے ہیں۔ بھئی اعلیٰ پائے کے محروم النسا جو ٹھہرے۔ فیس بک پر بھی آج تک ہماری دوستی کی درخواست کو کسی زنانہ نام والی یا والے نے درخور اعتنا نہ سمجھا اور اب تک ہمارے ایک سو بارہ فرینڈز صرف مرد ہی ہیں۔ لیکن آج تاریخ کے دھارے نے اپنا رخ تبدیل کر لیا ہے۔ ہم نے فٹافٹ اس آئی ڈی کو کلک کیا۔ ایک خوبصورت دوشیزہ ہماری تصوراتی نگاہوں کے سامنے جگمگا رہی تھی۔ ہمارا دل تھا کہ ہاتھوں سے نکلا جاتا تھا۔ پروفائل تصویر پر کچھ نہیں تھا مگر پھر بھی پر شوق نظروں سے دید کی پیاس کو بجھاتے ہوئے ہم نے فرینڈ ریکویسٹ ایکسیپٹ کر لی۔ جوں ہی دوستی پکی ہوئی جھٹ سے ہمارے انباکس نے سر اٹھایا۔ ہم نے کپکپاتے ہاتھوں اور ترستی نگاہوں سے انباکس کھولا تو اس حسینہ دلنواز کی ذرد لعنت ہمارے سامنے تھی۔ کچھ دیر کے لیے تو ہم بھونچکا رہ گئے۔ ہماری سمجھ میں نہ آیا کہ لعنت ہی بھیجنی تھی تو ہمیں دوستی کا شرف کیوں بخشا۔ اس ابتدائی جھٹکے سے سنبھل کر غور سے دیکھا تو وہ لعنت نہیں بلکہ ٹاٹا تھا۔ اب تو ہمیں باقاعدہ غصہ آ گیا۔ ہم نے ایک گلاس ٹھنڈا پانی پیا اور دوبارہ انباکس پر نظریں جما دیں۔ تب ہماری سمجھ میں آیا کہ وہ دراصل فیس بک کی طرف سے پیغام تھا کہ دوستی کر لی اب ہاتھ ہلاؤ یعنی چندے آفتاب چندے ماہتاب کو ہیلو کہو۔
ہماری جان میں جان آئی۔ ہم نے جھٹ پٹ ہاتھ ہلانا شروع کیا۔ تقریباً دس منٹ تک ہم ہاتھ ہلاتے رہے۔ ہمیں احساس ہی نہ ہوا کہ ہم کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے اشتیاق سے اپنا ہاتھ اسکرین کے سامنے ہلائے جا رہے ہیں۔ جب ہمارا ہاتھ اور ذہن دونوں تھک گئے تب جا کر اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ وہ تو شکر گزرا کہ ہمارے کمرے میں اس وقت اور کوئی نہیں تھا ورنہ اچھی خاصی بھد اڑتی۔ اگر آپ پر کبھی یہ وقت گزرا ہو تو آپ بخوبی ہماری کیفیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہم نے سوچنا شروع کیا کہ کن الفاظ میں اپنی نئی دوست کو مخاطب کریں۔ الفاظ کے تانے بانے بکھرے جا رہے تھے۔ ہم ایک جملہ سوچتے اور پھر اس کو رد کرتے۔ پھر دوسرا جملہ سوچتے تو پہلا جملہ اس سے بہتر لگتا مگر اس کو ہم پہلے ہی مسترد کر چکے ہوتے۔ الجھن سی الجھن تھی۔ اسی ادھیڑ بن میں کافی وقت گزر گیا۔
قریب تھا کہ ہم مایوس ہو کر ہمت ہار جاتے اور فیس بک بند کر کے کمپیوٹر سے آف لائن ہو جاتے کہ اچانک مژدہ جاں فزا اسکرین پر نمودار ہوا۔ ہماری گرل فرینڈ آن لائن ہو گئی تھی۔ ہم پھر کمر کس کر بیٹھ گئے۔ گو ہماری ہمت ابھی بھی نہ پڑی کہ ہم ہیلو کر سکیں۔ یک سوئی سے کمپیوٹر اسکرین کو گھورا کیے۔ تصور ہی تصور میں ہم کافی دور تک جا نکلے تھے۔ اتنی دور تک کہ اس کو احاطہ تحریر میں لانا نا ممکن ہے۔ اور پھر ہمارے انباکس کی اسکرین پر تین متحرک نقطے نمودار ہوئے۔ یہ اشارہ تھا اس بات کا کہ دوسری طرف سے کچھ لکھا جا رہا ہے۔ ہم ہمہ تن گوش ہو گئے۔ تقریباً پانچ منٹ تک وہ نقطے متحرک رہے اور ہمارے دل کی دنیا کو زیر و زبر کرتے رہے۔ وفور اشتیاق سے تب تک ہمارا رنگ سیاہی مائل سے سرخی مائل ہو چکا تھا۔ اتنا لمبا میسیج یقیناً محبت بھرا ہی ہو سکتا تھا۔ ہم یہ سمجھ گئے تھے کہ ہماری گرل فرینڈ ہماری تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہی ہو گی۔ اپنے دل کی بے قرار دھڑکنوں کی تفصیل بیان کر رہی ہو گی۔ اپنی تنہا زندگی میں سہانے رنگ بھرنے کی تمنا آشکار کر رہی ہو گی۔ اور پھر کمپیوٹر اسکین پر چارلفظی میسیج روشن ہوا اور ہمارے جذبات کی دنیا اندھیر کر گیا۔
لکھا تھا ۔ “بھائی میں لڑکا ہوں”۔ ہم نے لرزتے ہاتھوں سے انباکس بند کیا اور ایک ٹھنڈا سانس لے کر فیس بک آف لائن کر دی۔ ہمیں یاد آ گیا کہ بالکل ایسی صورت حال ہمارے ساتھ 2013 کے انتخابات میں ہوئی تھی جب ہم نے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کو ووٹ ڈالا تھا۔ آخر کار وہ بھی لڑکا ہی نکلی تھی۔