لاہور(ویب ڈیسک )بادشاہ نے اعلان کیا کہ میری سلطنت میں جو سب سے بڑا ’’بے وقوف‘‘ہےاسے پیش کرو۔ بادشاہ بھی ۔۔۔۔بادشاہ ہی ہوتے ہیں، خیر حکم تھا عمل ہوا۔۔۔۔ اور ’’بے وقوف‘‘ کے نام سے سنکڑوں لوگ پیش کر دئیے گئے، بادشاہ نے سب کا امتحان لیااور’’فائنل راؤنڈ ‘‘ میں ایک شخص کامیاب’ ’بے وقوف ‘‘قرار پایا۔بادشاہ نے اپنے گلے سے ایک قیمتی ہار اتار کر اس ’’بے وقوف ‘‘کے گلے میں ڈال دیا ،وہ بے وقوف اعزاز پا کر اپنے گھر لوٹ گیا،ایک عرصے کے بعد ’’بے وقوف ‘‘بادشاہ سے ملنے کے خیال سے آیا بادشاہ مرض الموت میں آخری وقت گزار رہا تھابادشاہ کو بتایا گیا ،بادشاہ نے اذن ملاقات بخش دیا۔ بے وقوف حاضر ہوا، ’’بادشاہ سلامت۔۔۔۔ آپ لیٹے ہوئے کیوں ہیں،؟بادشاہ مسکرایا اور بولا’’میںآب اْٹ نہیں سکتا،کیونکہ میں ایک ایسے سفر پر جا رہا ہوں،جہاں واپسی نہیں ہوگئی اورنہیں ہوگئی اور وہاں جانے کے لیے لیٹنا ضروری ہے‘‘ بے وقوف نے حیرت نے پوچھا ’’واپس نہیں آنا؟کیا ہمیشہ وہاں ہی رہنا ہے؟ ‘‘ بادشاہ بے بسی سے بولا ،ہاں۔۔۔ہمیشہ وہیں رہنا ہے‘‘ ’’تو آپ نے تو وہاں یقیناًبہت بڑا محل ،بڑے باغیچے،بہت سے غلام بہت سے بیگمات،اوربہت سامان عیش روانہ کر دیاہوگا’’بے وقوف نے کہا بادشاہ چیخ مارا کر رو پڑا،بے وقوف حیرت سے بادشاہ کو دیکھا،اسے سمجھ نہ آئی، کہ بادشاہ کیوں روپڑاہے۔ ’’نہیں۔۔۔۔۔میں نے وہاں ایک جھونپڑی بھی نہیں بنائی۔۔۔ روتے ہوئے بادشاہ کی آواز نکلی ، ’’کیا ایسا ہوسکتا ہے۔۔۔آپ سب سے زیادہ سمجھدارہیں،جب آپ کو پتہ ہے ہمیشہ وہاں رہنا ہے ضرورانتظام کیا ہوگا۔’’ بے وقوف نے کہا ’’ افسوس۔۔۔صد افسوس کے میں نے کوئی انتظام نہیں کیا ۔۔۔۔آہ بادشاہ کے لہجے میں بلاکادردتھا بے وقوف اْٹھا ۔ اپنے گلے سے ہار اْتارا۔ اور بادشاہ کے گلے میں ڈال کر بولا ’’تو پھر حضور ۔۔۔۔اس ہارکے حقداد آپ مجھ سے زیادہ آپ ہیں –