کالم کا پہلا حصہ :اس لنک میں ملاحظہ کریں:
وقار خان صحافی، کالم نگار
چکوال کے ایک پٹواری نے بھری محفل میں صدر ایوب پر کرپشن کا الزام لگا کر پورے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔ اسی شام انتظامی افسران نے گستاخ پٹواری کو ریسٹ ہاؤس میں طلب کیا۔ اسسٹنٹ کمشنر چکوال کیپٹن سعید نے کہا کہ اگرچہ میرے اختیارات محدود ہیں مگر تم نے کام ایسا کیا ہے کہ مجھ سے جتنا ہو سکا تمہارا دفاع کروں گا۔ ڈپٹی کمشنر نوابزادہ یعقوب خان نے پٹواری کو الگ کمرے میں بلایا، اپنا پرس نکال کر میز پر رکھ دیا اور کہا کہ اگر میرے کسی دورے پر تم نے کچھ خرچ کیا ہو تو اس میں سے لے لو۔
اس نے انکار کیا تو ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ تمہارے ساتھ تو اب جو ہو گا سو ہو گا لیکن خدارا کہیں بھی میرا نام نہ لینا۔ اگلے دن تمام افسران بشمول ڈی سی، اے سی، ایس پی اور تحصیلدار وغیرہ کے تبادلے کر دیے گئے۔ اب پٹواری کے لیے انکوائریوں اور مصیبتوں کا دور شروع ہوا اور ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔
نئے اسسٹنٹ کمشنر اے۔ کے خالد نے ان کی لائسنسی بندوق ضبط کی اور اس ’مقدمے‘ میں ان کی عبوری ضمانت دینے والے چوہدری جہان خان ایڈوکیٹ نے جب اے سی سے پوچھا کہ مچلکے میں کون سا جرم لکھنا ہے تو صاحب بہادر نے کہا کہ ’آپ مچلکہ فِل کر دیں، میں خود ہی کوئی جرم لکھ لوں گا۔‘
چکوال کے سردار اشرف خان مرحوم اس وقت پارلیمانی سیکریٹری تھے مگروہ ایسے موقعوں پر ’اللہ خیر کریسی‘ تک ہی محدود رہتے تھے، البتہ راجہ محمد افضل کالس کی سفارشوں پر اے سی نے بتایا کہ ’مجھے اوپر سے حکم ہے کہ اس پٹواری کو کسی نہ کسی مقدمے میں لمبی قید کی سزا سناؤں، تاہم مجھ سے جتنا ہو سکا مقدمات کو لمبا کرتا رہوں گا۔‘
اس واقعے کے دوسرے دن امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی صاحب نے اپنا معتمد خاص (امیر جماعت اسلامی لائلپور) پٹواری کے پاس خان پور بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ ’مولانا نے آپ کا فوٹو منگوایا ہے اور جابر حکمران کے خلاف کلمہ حق بلند کرنے پر آپ کو خراج ِ تحسین پیش کیا ہے، نیز کہا ہے کہ آپ قدم بڑھائیں جماعت کے وسائل آپ کے لیے حاضر ہیں۔‘
پٹواری نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’وہ ایک جذباتی قدم تھا، میں معمولی سرکاری ملازم ہوں اور میرا مزید ’قدم بڑھانے‘ کا ارادہ نہیں۔‘
اس پر مودودی صاحب نے انہیں تفصیلی خط لکھا اور ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ خط ایجنسیوں نے پکڑ لیا۔ انکوائریوں کا رخ اس طرف مڑ گیا، تا ہم پٹواری کا کسی بھی جماعت وغیرہ سے تعلق ثابت نہ ہو سکا۔ بات اخباروں میں بھی پھیلنی شروع ہو گئی۔ شنید ہے کہ جب انکوائری رپورٹیں صدر ایوب خان تک پہنچیں تو انہوں نے مزید رسوائی کے ڈر سے پٹواری کو نہ چھیڑنے اور معاملے پر مٹی ڈالنے کا حکم دیا اور یوں ان کی گلو خلاصی ہوئی۔
ایوب خان اس کے بعد دو دفعہ مزید شکار کے لیے چکوال آئے مگر اس طرح کہ پٹواریوں سے خرچہ تو نہ لیا گیا البتہ گورنر امیر محمد خان کا حکم آ گیا کہ خبردار، پٹواری خان پور شکار گاہ کی طرف نہ جانے پائے۔ سو ایس پی سکیورٹی نے اس کو دونوں دفعہ ریسٹ ہاؤس میں نظر بند کر دیا۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس جناب عبدالکریم کنڈی اس وقت چکوال میں سول جج تعینات تھے۔ انہوں نے ناطق زیدی ایڈووکیٹ کے ذریعے پٹواری سے ملاقات کر کے اس کی جرات پر شاباش دی اور پیشکش کی کہ ’اگر تم چاہو تو صدر کے خلاف میری عدالت میں خرچے کا دعویٰ کر دو اور ثبوت پیش کرو تو میں صدر کے خلاف ڈگری جاری کر دوں گا، پھر مل کر بھگتیں گے۔‘
پٹواری نے ان کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ’انہوں نے مجھے ناجائز طور پر مطعون کیا اس لیے میں نے کھری کھری سنا دیں، میں اکیلا آدمی ہوں، مزید بات بڑھانا میرے بس کی بات نہیں۔
‘
سابق گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمٰن اس وقت راولپنڈی میں لیفٹیننٹ جنرل تعینات تھے۔ وہ پٹواری کے مہربان تھے۔ 1955-56 میں جب وہ کروڑ لعل عیسن (لیہ) میں پٹواری تعینات تھا تو عتیق الرحمٰن وہاں اپنی زمینوں کے مسائل کے سلسلے میں اس کے پاس جاتے تھے۔ اکثر ان کی بیگم مسز نسیم عتیق الرحمٰن بھی جاتی تھیں۔ اس وقت سے ان کے ساتھ واسطہ تھا۔ اس واقعہ کے بعد پٹواری کسی کام کے سلسلے میں ان کے گھر راولپنڈی گیا تو بیگم صاحبہ نے دہائی دی کہ تمہارے خلاف اعلیٰ ترین سطح پر انکوائری ہو رہی ہے،تم ہمارے ساتھ اپنا تعلق ختم سمجھو ورنہ ہمیں بھی لے ڈوبو گے۔ بریگیڈیئر مظفر آف جھاٹلہ کچھ عرصے بعد پٹواری کو اتفاقاً ملے تو پوچھا، ’جوان تم نے ابھی تک کوئی قتل نہیں کیا ؟ ’اس نے کہا نہیں جناب، میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔‘
بریگیڈیئر صاحب نے کہا، ’پاگل تو نہیں ہو لیکن ہمارے لیے تو تم نے زلزلہ برپا کر دیا تھا۔ تمہیں کیا خبر کہ بات کہاں تک گئی اور کس کس نے بھگتی؟‘
بیتے دنوں کا ایک نامعتبرسا قصہ دہرانے کی غرض یہ عرض کرنا ہے کہ یہ کہانی پرانی نہیں ہوئی۔ ماضی ہو یا حال، ارباب ِ اقتدار و اختیار کی رشوت اور بدعنوانی کے خلاف کھوکھلی بڑھکوں کی حیثیت محض لطیفوں سے زیادہ نہیں۔ یہ لوگ جتنے بھی کرپشن ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں، ان کو نرم سے نرم الفاظ میں بھی لغویات کہا جا سکتا ہے۔ کل بھی ان کا یہی وتیرہ تھا، آج بھی ان کا یہی چلن ہے۔ پٹواری ہی ان کے جلسوں اور شکاروں کا انتظام کرتے ہیں اور پٹواری ہی ان کے جلسوں کے لیے لوگ، انتخابات کے لیے ووٹ اور شکار گاہوں کے لیے تیتر اکٹھے کرتے ہیں۔ اگر یہ غلط ہے تو آج بھی پٹواریوں کے تبادلوں پر جھگڑے کیوں ہیں؟
اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ ملک کو بیچ کر کھا جائیں گے تو ڈکار تک نہیں مارتے اور کرپشن ختم کرنے پر آتے ہیں تو کلرکوں اور پٹواریوں کی۔ کلرک کی رشوت والا ہزار کا نوٹ تو انٹی کرپشن کا انسپکٹر با آسانی پکڑ لیتا ہے مگر انہیں سراغ نہیں ملتا تو موٹر وے اور میٹرو کے کمیشن اور منی لانڈرنگ کے کیسوں کا۔ کبھی یہ ہمیں سرے محل کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیتے ہیں اور کبھی ایون فیلڈ کی، مگر حاصل کیا ہوتا ہے؟
ہمارے والد شاہ نواز خان کا سروس ریکارڈ ایسے ہی کئی گستاخانہ واقعات سے عبارت ہے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد 2016 تک اپنے گاؤں میں مطمئن زندگی گزار تے رہے۔ تھوڑی سی جدی بارانی زمین اور سفید پوشی کے علاوہ کوئی اثاثہ نہیں مگر پچھتاوا بھی کوئی نہیں تھا۔ البتہ آخری دم تک دکھ رہا تو حبیب جالبؔ والا کہ
وہی اہلِ وفا کی صورتِ حال
وارے نیارے ہیں بےضمیروں کے