معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے ایک خصوصی خطاب میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک بار میں انگلینڈ میں تھا تو وہاں ایک سکھ نوجوان آیا، وہ کہنے لگا کہ میں نے شراب پی ہوئی تھی اور میں فلم دیکھ رہا تھاانٹرنیٹ پر۔ جب فلم ختم ہوئی تو آپ کی تصویر میرے سامنے آئی۔ مجھے اس وقت خیال آیا کہ یہ کوئی دہشتگرد ہے ،اس کی تقریر مجھے سننی چاہئے، میں نے تصویر پر کلک کیا ، اس کے بعد میں نے تقریرسنی اور میں نے رونے لگا۔ میں نے اوپر نیچے چار بیان لگاتار 8 گھنٹے سن ڈالے۔ میرے دل میں اس وقت ایسی بات پیدا ہو گئی کہ میں نے کلمہ پڑھنا ہے اور اسی آدمی کے ہاتھ پڑھنا ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ اس سکھ نوجوان نے میرے ہاتھ اسلام قبول کیا اور اپنا اسلامی نام عمرر کھا۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ دنیا بہت پیاسی ہے۔ پیغام سنانے والے سو گئے ہیں اور فرقہ واریت میں بٹ گئے ہیں اس لئے اسلام کا پیغام آگے نہیں پہنچ رہا۔ دوسری جانب تبلیغی جماعت کے عالم دین مولانا طارق جمیل نے کہا کہ یہ دنیا جس کو ہم نے سب کچھ سمجھ لیا ،فانی ہے ،ہم سب نے اپنی اپنی باری پر مرنا ہے اور ایک دن اپنے پروردگارکے سامنے پیش ہونا ہے ،روزانہ ہم اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے منوں مٹی تلے دبا کر آتے ہیں لیکن پھر بھی ہمیں موت پر یقین نہیں آرہا ،جس لمبے سفر پرہم سب نے اکیلے جانا ہے ہمیں اس کی تیاری کی بالکل فکر نہیں ،دنیا میں سب جھوٹ مگر موت برحق ہے ،اللہ کو ماننے کا مطلب موت پر یقین ہے ،اور موت پر یقین یہ ہے کہ ہم برے کام چھوڑ کر وہ کام کریں جس سے اللہ اور اس کا حبیب خوش ہوں اور ہمارا شمار بھی ان بندوں میں ہوجائے جن کے دائیں ہاتھ میں انکا نامہ اعمال تھمایا جائے گا ،انہوں نے کہا کہ یہ دنیا کا مال و دولت ،اولاد ،رتبہ غرضیکہ ہر شے یہیں پر رہ جانی ہے ساتھ جانا ہے تو ہمارے اعمال نے ،لیکن اس بات کی کسی کو کوئی فکر نہیں ،حکومت کی فکر ہے۔