لاہور ; موجودہ عراق میں دنیا کی قدیم ترین بابل کی تہذیب کا آغاز ہوا۔ وہاں سے ملنے والے حمورابی کے ضابطہ قانون میں سزائے موت کا ذکر ملتا ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لئے قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک ’’پھانسی‘‘ کا طریقہ سب سے زیادہ عام ہے۔
آج بھی جن ممالک میں سزائے موت لاگو ہے وہاں اکثر ممالک میں پھانسی کے ذریعے ہی اس سزا پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ اس میں مجرم کی گردن کے گرد پھندا ڈال کر اسے اونچی جگہ سے لٹکا دیا جاتا ہے تاکہ وہ گردن کی ہڈی ٹوٹنے یا دم گھٹنے سے مر جائے۔ پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سنگین جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت، پھانسی کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس کا پورا طریق کار (کوڈ) موجود ہے، جس کے مطابق پھانسی کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔ پھانسی سے ایک روز قبل مجرم کا وزن کیا جاتا ہے تا کہ اندازہ ہو سکے کہ رسی کیسی اور کتنی درکار ہو گی جو اس کے جسم کے بوجھ کو سہار سکے۔ ہر مجرم کے وزن کے مطابق رسی تیار کی جاتی ہے۔ مجرم کے وزن کے برابر ریت ایک بوری میں بھر کر اسے تختہ دار پر تجرباتی پھانسی کے عمل سے گزارا جاتا ہے۔ فوری موت کو یقینی بنانے کے لیے رسی کی لمبائی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ رسی زیادہ لمبی ہو نے کی صورت میں ملزم کا سر تن سے جدا بھی ہو سکتا ہے لیکن بہت زیادہ چھوٹی کرنے پر مجرم کی موت دم گھٹنے سے ہی ہو گی ،
یعنی اس میں بہت وقت صرف ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس طرح جان نکلنے میں پون گھنٹہ تک لگ سکتا ہے، یعنی یہ بہت اذیت ناک موت ہو سکتی ہے۔ پھانسی دینے کے لیے جو رسی استعمال کی جاتی ہے وہ تین چوتھائی انچ سے لے کر سوا انچ تک موٹی ہوتی ہے۔ اسے پھانسی سے قبل گرم پانی میں اْبالا جاتا ہے اور خوب کھینچ تان کر سخت کیا جاتا ہے تاکہ اس میں لچک اور گھماؤ ختم ہو جائے۔ رسی میں جو گرہ لگائی جاتی ہے اسے موم یا صابن سے خوب چکنا کیا جاتا ہے تاکہ تختہ کھینچنے کے بعد وہ پھندے کو گردن کے گرد اچھی طرح کسنے میں مدد دے۔ پھانسی سے قبل قیدی کے ہاتھ اور ٹانگیں، دونوں باندھے جاتے ہیں۔ چہرے کو ڈھانپ دیا جاتا ہے، پھر پھندا گردن کے گرد ڈالنے کے بعد گرہ کو بائیں کان کے قریب رکھا جاتا ہے۔ پھانسی دیتے ہوئے اس کے پیروں کے نیچے سے تختہ کھینچ لیا جاتا ہے، یوں قیدی نیچے لٹک جاتا ہے ۔ اس کے جسم کا پورا وزن گردن پر زور ڈالتا ہے جس سے گردن کی ہڈی ٹوٹ جانی چاہیے لیکن ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ مجرم گردن کی ہڈی ٹوٹنے
سے مرا ہو۔