پاکستان مسلم لیگ ن کی سیٹ بچ گئی لیکن عزت نہ بچ سکی‘ یہ لوگ الیکشن جیت گئے لیکن یہ عوامی تائیدہار گئے۔ پارٹی نے 2013ء میں 91666 ووٹ حاصل کیے تھے‘ یہ ووٹ 2017ء میں کم ہو کر 61745 رہ گئے، گویا میاں نواز شریف نے چار برسوں میں بھرپور اقتدار اور شاندارپرفارمنس کے باوجود اپنے حلقے کے 29921 ووٹ کھو دیے جب کہ عمران خان کی حماقتوں کے باوجود ان کے صرف 5222 ووٹ کم ہوئے‘ اس کا ذمے دار کون ہے؟ میاں نواز شریف نے 17 ستمبر کو 14646 ووٹوں کی برتری حاصل کی لیکن پارٹی اور خاندان دونوں مزید کمزور ہو گئے‘ اس کا ذمے دار کون ہے؟ عالمی دباؤ اور حکومتی پریشانی کے باوجود حافظ سعید صاحب نے نہ صرف اپنی سیاسی جماعت ملی مسلم لیگ بنائی بلکہ ان کے امیدوار شیخ یعقوب نے این اے 120 کا الیکشن بھی لڑا‘ حلقے میں حافظ سعید کی تصویروں کے بینرز اور پوسٹرز بھی لگائے‘ جلسے بھی کیے اور 5822 ووٹ لے کر خود کو چوتھی بڑی سیاسی جماعت بھی ثابت کیا اور انھیں الیکشن کمیشن روک سکا اور نہ ہی صوبائی اور وفاقی حکومت‘ اس کا ذمے دار کون ہے؟ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے بقول ’’الیکشن سے دو دن قبل ان کے امجد نذیر بٹ جیسے 10 مین سپورٹرز کو گھروں سے اٹھا لیا گیا۔
اغواء کار بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں آئے‘ امجد نذیر بٹ کے منہ پر کالا کپڑا ڈالا اور انھیں لے گئے‘‘ امجد نذیر بٹ کے اغواء نے حکومت کا رہا سہا بھرم بھی توڑ دیا‘ ثابت ہو گیا جو حکومت صوبے اور وفاق میں بھرپور اقتدار کے باوجود اپنے مین سپورٹرز کو سپورٹ نہیں کر سکتی وہ عوام کی کیا حفاظت کرے گی‘ اس بھرم شکنی کا ذمے دار کون ہے؟ اوروہ میاں نواز شریف جو اپنے حلقے کے اس الیکشن جس نے میاں صاحب اور ن لیگ کا مستقبل طے کرنا تھا وہ اگر اس میں اپنے سگے بھتیجے حمزہ شہباز کو نہیں لا سکے تو وہ مستقبل میں چوہدری نثار جیسے لیڈروں کو کیسے راضی کریں گے‘اس منفی تاثر کا ذمے دار کون ہے؟ ہمیں ماننا پڑے گا ہم جس زاویئے سے بھی دیکھیں یہ الیکشن پاکستان مسلم لیگ ن کے لیے خسارے کا سودا ثابت ہو گا‘ یہ پارٹی کا رہا سہا بھرم بھی توڑتا نظر آئے گا۔
یہ درست ہے مریم نواز میں قائدانہ صلاحیتیں ہیں‘ یہ بااعتماد بھی ہیں‘ یہ پرکشش بھی ہیں‘ یہ اردو اور انگریزی دونوں زبانیں اصل ش ق کے ساتھ بول لیتی ہیں اور یہ پارٹی کے اندر اپناگروپ بھی بنا چکی ہیں لیکن ہمیں اس کے باوجود یہ ماننا پڑے گا ان کی غلط لانچنگ نے ان کا سیاسی مستقبل مخدوش کر دیا‘ ہمیںیہ بھی ماننا پڑے گا میاں نواز شریف نے بھی مریم نواز کے معاملے میں وہی غلطی کی جو آصف علی زرداری نے بلاول زرداری کی لانچنگ کے دوران کی تھی‘اگر بلاول زرداری بے نظیر بھٹو کی طرح اپوزیشن کے دور میں سیاسی ورکر کی حیثیت سے لانچ ہوتے تو یہ اب تک ملک اور پارٹی دونوں میں اپنی جگہ بنا چکے ہوتے‘ اگرمیاں نواز شریف بھی مریم نواز کو 2008ء میں منتخب کرا لیتے‘ یہ انھیں قومی اسمبلی بھجوا دیتے یاپھریہ مریم نوازکو2013ء میں منتخب کرواتے‘ انھیں وزیرمملکت بناتے اور یہ کابینہ کے اجلاس میں آخری کرسی پر بیٹھ کر چار سال پورے کرتیں تو آج حالات یکسر مختلف ہوتے‘ یہ اب تک سسٹم اور پارٹی کو سمجھ چکی ہوتیں اور پارٹی اور سسٹم بھی ان سے واقف ہو چکا ہوتا لیکن جس طرح آصف علی زرداری نے اقتدار کے دوران بلاول کو بطور کراؤن پرنس لانچ کیا اور اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو صرف اڑھائی ہزار ووٹ ملے‘ میاں صاحب نے بھی بالکل اسی اسٹائل میں مریم نواز کی ’’پرنسیس‘‘ لانچنگ کر دی چنانچہ لوگ آج ببانگ دہل کہہ رہے ہیں۔
چوہدری نثار چالیس سال کی سیاسی وفاداری کے باوجود کسی ایک شخص کو ایم این اے نہیں بنوا سکے لیکن مریم نواز نے تین برسوں میں بارہ وفاقی وزیر بنوا دیے اور حکومت کے پاس ان وزراء کو دینے کے لیے دفتر اور پورٹ فولیوتک موجود نہیں ہیں‘لوگ مریم نواز کے صاحبزادے جنید صفدر اور داماد راحیل منیر پر بھی اعتراض کر رہے ہیں‘ حکومتی وزراء ببانگ دہل کہہ رہے ہیں جنید صفدر کس کیپسٹی میں میٹنگ لیتے ہیں؟ ایک وفاقی وزیر نے کھل کر کہا‘ رائے ونڈ میں جنید صفدر کا انٹرویو کرانا اور ان کا گھوڑے پر بیٹھ کر ملکی ایشوز ڈسکس کرنا پانامہ سکینڈل سے بڑی حماقت ہے اور پھر ضمنی الیکشن کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب کا ملک سے باہر چلے جانا اور حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کا سین سے غائب ہو جانا اور پارٹی کے تمام سینئر لیڈرز کا بیگم کلثوم نواز کے الیکشن سے لاتعلق رہنا یہ ساری باتیں‘ یہ سارے حقائق منہ سے کیا بول رہے ہیں اور ان تمام سیاسی غلطیوں کا ذمے دار کون ہے؟
ملک واقعی خطرات کی طرف دوڑ رہا ہے‘ میاں نواز شریف ان نازک گھڑیوں میں ملک کے لیے ضروری ہیں‘ یہ ملک کے واحد تجربہ کار لیڈر ہیں لیکن میاں صاحب حالات اور خطرات پر توجہ دینے کے بجائے غلطیوں پر غلطیاں کرتے چلے جا رہے ہیں‘ ہمارے دونوں بارڈرز افغانستان اور بھارت ایکٹو ہیں‘ امریکا ان دونوں کے پیچھے کھڑا ہے‘ پاکستان کو دہشت گرد ریاست ڈکلیئر کیا جا رہا ہے‘ ہماری امداد اور قرضے بند ہو رہے ہیں‘ برآمدات روکنے اور سفارتی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے‘ صدر ٹرمپ جوہری پلانٹ پر قبضے کے 3900 ماہرین افغانستان بھجوا رہے ہیں اور برکس جیسی وہ طاقتیں جن کے آسرے پر ہم اس وقت اچھل رہے ہیں وہ بھی ہمیں اپنا ’’ہاؤس ان آرڈر‘‘ کرنے کا مشورہ دے رہی ہیں لیکن ہم ’’اک واری فیر شیر …شیر‘‘ کے نعرے لگوا رہے ہیں‘ میں دل سے یہ سمجھتا ہوں حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر پاکستانی شہری ہیں‘ دونوں نے ملک کا کوئی قانون نہیں توڑا‘ یہ دونوں اس وقت کوئی عسکری تنظیم بھی نہیں چلا رہے‘ یہ ویلفیئر کا کام کر رہے ہیں۔
بھارت بھی آج تک ان کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا‘ مولانا مسعود اظہر تہاڑ جیل میں تھے‘ بھارت نے انھیں ائیر انڈیا کے طیارے کے اغواء کے بعد خود قندہار میں رہا کیا‘ بھارتی سرکار جس شخص کو اپنی قید میں نہیں رکھ سکی وہ اس شخص کو جرم اور قانون کے بغیر سزا دلانے کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤ ڈال رہی ہے‘ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ حافظ سعید بھی 22 کروڑ پاکستانیوں کی طرح کشمیر کو آزاد دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ ملک کی حرمت پر کٹ مرنا بھی اعزاز سمجھتے ہیں‘ لشکر طیبہ اور مریدکے سینٹر کو بھی بند ہوئے 16 سال ہو چکے ہیں لیکن بھارت میں آج بھی جب کسی سرکاری گاڑی کا ٹائر پھٹتا ہے تو پورا ملک حافظ سعید کے نعرے لگانا شروع کر دیتا ہے‘ بھارت اپنے ٹائر مضبوط نہیں کر رہا لیکن ہم سے توقع کرتا ہے ہم عدالتی کارروائی کے بغیر حافظ صاحب کو پھانسی دے دیں‘ حقانی نیٹ ورک بھی اسی قسم کا ہوا ہے۔
یہ لوگ اگر واقعی موجود ہیں اور یہ پاکستان سے افغانستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں تو پہلے اس افغان حکومت اور اس امریکی فوج سے پوچھنا چاہیے جو 16سال سے افغانستان کے چپے چپے کی مالک ہے‘ یہ لوگ اگر سپرپاور ہو کر ان لوگوں کو بارود کے ساتھ افغانستان میں داخل ہونے اور سرحد سے پانچ سو کلو میٹر دور ایکشن سے نہیں روک پا رہے تو پاکستان جیسا ملک انھیں کیسے کنٹرول کر سکتا ہے؟ ہم سے پہلے افغانستان اور امریکا کو اپنا ’’ہاؤس ان آرڈر‘‘ کرنا چاہیے اور ہم پر مداخلت کا الزام لگانے والے بھارت کے پاس کلبھوشن یادیو کا کوئی جواب موجود نہیں‘ کلبھوشن یادیو نے خود اپنے منہ سے بلوچستان میں مداخلت کا اعتراف بھی کیا اور ثبوت بھی دیے لیکن دنیا کو یہ سارے نقطے کس نے سمجھانے ہیں؟ ہماری بے گناہی کا مقدمہ کس نے لڑنا ہے؟ ظاہر ہے یہ حکومت کا کام ہے لیکن حکومت کیا کر رہی ہے؟ حکومت امجد نذیر بٹ کو تلاش کر رہی ہے اور یہ این اے 120 میں میاں نواز شریف کے ووٹوں میں کمی کا جشن منا رہی ہے۔
ہم ایک لمحے کے لیے یہ بھی فرض کر لیتے ہیں امریکا‘ بھارت اور برکس ممالک کے خدشات درست ہیں‘ پورے خطے کا واحد ایشو حقانی نیٹ ورک‘ حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر ہیں اور میاں نواز شریف اور حکومت بھی امریکا اور بھارت سے اتفاق کرتی ہے لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے حکومت نے پھر اس خطرے سے نبٹنے کے لیے آج تک کیا کیا؟ حکومت کی حالت یہ ہے صدر ٹرمپ‘ بھارت اور برکس دنیا بھر میں ہمارے خلاف واویلا کر رہے ہیں اور ملک میں نہ صرف ایک رات میں ملی مسلم لیگ بن گئی بلکہ اس جماعت نے وزیراعظم (سابق) کے حلقے میں وزیراعظم کی بیگم کے خلاف امیدوار بھی کھڑا کردیا‘ حافظ سعید کے پوسٹر بھی لگادیے‘ جلسے بھی کیے‘ الیکشن بھی لڑا اور خود کوچوتھی بڑی جماعت بھی ثابت کردیا مگر حکومت منہ دیکھتی رہ گئی‘ کیوں؟ حافظ سعید اگر بے گناہ ہیں تو ہم آج تک دنیا کو ان کی بے گناہی کایقین کیوں نہیں دلا سکے اور یہ اگر واقعی خطے میں خرابی کے ذمے دار ہیں تو پھر ہم انھیں روک کیوں نہیں پا رہے‘ یہ کنفیوژن کیوں ہے اور اس کنفیوژن کا ذمے دار کون ہے؟ کیا یہ کنفیوژن حکومت کی ناکامی کا ثبوت نہیں اور حکومت اپنی ناکامی کا یہ تاثر زائل کرنے کے بجائے چوہدری نثار سے کیوں لڑ رہی ہے‘ یہ امجد نذیر بٹ کو تلاش کیوں کر رہی ہے اور یہ ناکامی سے بدتر کامیابی کا جشن کیوں منا رہی ہے؟ اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ کھیل کب تک چلتا رہے گا ؟ میاں صاحب کب جاگیں گے اور یہ ان سوالوں کا جواب کب اور کہاں دیں گے؟