مؤرخین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت نوح علیہ السلام نے انگور کی بیل اگائی. ایک دن شیطان آیا اور اس نے انگور کی بیل پر پھونک ماری تو وہ سوکھ گئی.حضرت نوح علیہ السلام یہ کیفیت دیکھ کر پریشان ہوگئے ، پھر شیطان آپ ؑ کی خدمت میں آیا اور
کہنے لگا اے اللہ کے نبی! آپ پریشان کیوں ہیں؟ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی ، وجہ سن کر شیطان نے حضرت نوح علیہ السلام کو مشورہ دیا کہ اگر آپ اس بیل کو سر سبز دیکھنا چاہتے ہیں تومیرے مشورے پر عمل کریں اورمجھے اجازت دیجیئے کہ میں اس بیل پر شیر، چیتا، ریچھ، گیدڑ، کتا، لومڑی اور مرغ سات جانوروں کا خون بطور نذرانہ چڑھا دوں. اس عمل سے مجھے یقین ہے کہ یہ بیل دوبارہ ہری بھری ہو جائے گی. حضرت نوح علیہ السلام نے اجازت دے دیاور یہ اجازت بے خبری کی وجہ سے تھی، چونکہ حضرت نوح علیہ السلام کو اس وقت نذرانے کی حرمے معلوم نہیں تھی. چناچہ شیطان نے ان سات جانوروں کا خون انگور کی بیل میں چڑھا دیا تو اچانک وہ سرسبز ہونے لگی بلکہ خون ڈالنے سے اتنا فائدہ ہوا کہ ہمیشہ بیل میں ایک ہی قسم کے انگور لگتے تھےلیکن اس مرتبہ سات قسم کے انگور آئے. اسی وجہ سے “شرابی”(شراب پینے والا) شیر کی طرح بہادر، ریچھ کی طرح طاقتور، چیتے جیسا غصہ، گیدڑ کی طرح بھونکنے والا، کتے کی طرح جھگڑالو، لومڑی کی طرح چاپلوس اور مرغ کی طرح چنختا رہتا ہے. اسی زمانے میں نوح علیہ السلام کی قوم پر شراب حرام کردی گئی.(روضہ العلماء) قرآنِ مجید میں شراب کی حرمت تدریجاً بیان ہوئی ہے۔ شراب کے رسیاء عرب معاشرے نے شراب کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے جواب ان الفاظ میں دیا:يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا.آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ (البقرة، 2: 219) شراب کی بابت سوال کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا کہ اگرچہ شراب اور جوئے میں بظاہر کچھ فائدہ ہے، لیکن ان کا گناہ اور نقصان ان کے فائدہ سے شدید تر ہے۔ ہر آدمی جانتا ہے کہ شراب پینے سے عقل جاتی رہتی ہے اور یہی عقل ہی انسان کو تمام برائیوں اور افعال شنیعہ سے بچاتی ہے۔ اس آیت کے نزول کے بعد بہت سی محتاط طبیعتوں نے مستقل طور پر شراب نوشی ترک کردی۔ پھر کسی موقع پر نماز مغرب ہورہی تھی، امام صاحب نے نشہ کی حالت میں سورہ الکافرون میں ”لاَأَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “ کی جگہ “أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ “ پڑھا، جس سے معنی میں بہت زیادہ تبدیلی آگئی، یعنی شرک سے اظہار برأت کی جگہ شرک کا اظہار لازم آیا تو اللہ تعالیٰ نے فوراً یہ آیت نازل فرمائی: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّى تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُونَ. اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو۔