counter easy hit

جب ہندوستان جاپان کے قبضے میں آتے آتے رہ گیا، پڑھیے ایک تاریخی رپورٹ

When India came to Japan's occupation, a historical report read

کوہیما انڈیا (ویب ڈیسک) کی شمال مشرقی ریاست ناگالینڈ کا پہاڑی شہر اور ریاست کا دارالحکومت ہے جو ایک پہاڑی پشتے پر واقع ہے۔ یہ شمال مشرقی ہندوستان کے دوردراز پہاڑی اور بنجر خطے میں 5,000 فیٹ کی بلندی پر بڑی شان سے کھڑا ہے۔ اور آج کے جغرافیے میں یہ ریاست ناگا لینڈ میں واقع ہے۔دوسری جنگ عظیم کے دوران اس خطے میں برما کے محاذ پر دنیا کی سب سے خوف ناک جنگ لڑی گئی تھی۔ یہ وہ شہرۂ آفاق جنگ تھی جس نے ہندوستان پر جاپانی حملے کو بری طرح ناکام بنادیا تھا اور اس وجہ سے یہاں سے اس جنگ کا رخ مشرق بعید کی طرف ہوگیا تھا۔ دوسری اکثر جنگوں کی طرح جو جنوب مشرقی ایشیا میں لڑی گئی تھیں، کوہیما کی جنگ حیرت انگیز طور پر اکثر لوگوں اور اقوام کے لیے نامعلوم اور غیرمعروف رہی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دور میں پوری کی پوری دنیا کی توجہ یورپ میں نازی جرمنی کی طرف تھی اور دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک اسی سے نبرد آزما تھا۔ اس کے علاوہ یورپ پر اتحادی حملوں کے باعث بھی جنگ کوہیما کی طرف کسی نے خاص توجہ نہیں دی تھی جو اس وقت بھی جاری تھی جب دوسری عالمی جنگ نے پوری دنیا میں قیامت خیز تباہی مچادی تھی۔اس دور میں منی پور اور ناگالینڈ کی دو شمال مشرقی ریاستیں جو اس وقت آسام کا حصہ تھیں، یہ دوسری جنگ عظیم میں بہت اہم محاذ تھیں اور جنہیں اس وقت برمی محاذ کہا جاتا تھا۔اس خطے کے ناہموار، بنجر اور گھنے جنگلات میں ہندوستانی اور برطانوی افواج کے جاپانی فوجیوں کے خلاف کئی خوف ناک معرکے ہوئے جن میں سے ایک جنگ یہی جنگ کوہیما کہلاتی ہے جس میں جاپانی افواج کو شکست فاش ہوئی تھی، یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس نے ٹوکیو کو حد درجہ مایوس کیا اور اسی دوان ٹوکیو کے شاہی حکم رانوں کی قسمت بھی ان پر نامہربان رہی اور وہ جنوبی ایشیا میں حسب منشا کام یابیاں حاصل نہ کرسکے۔کوہیما اس پہاڑی پشتے پر واقع ہے جو شمال اور جنوب کی طرف سیدھا چلا گیا ہے، اس پہاڑی پشتے پر ایک سڑک بھی بنی ہوئی ہے جو برطانوی سپلائی بیس واقع دیماپور تک جاتی ہے۔ یہ شمال میں دریائے برہم پتر کی وادی میں واقع ہے اور اس کے جنوب میں امفال واقع ہے اور مذکورہ سڑک اسی سے گزرتی ہے۔امفال سے یہ سڑک مزید جنوب کی طرف اور پھر وہاں سے برما کے اندر تک جاتی ہے۔اصل میں یہ وہ راستہ تھا جہاں سے جاپانی برما کے راستے اندر گھس کر ہندوستان پر حملہ آور ہونا چاہتے تھے۔ اس پلان کو انہوں نے آپریشن U-Go کا نام دیا تھا اور اس کے پس پشت یہ خواہش کارفرما تھی کہ اس طرح ناگالینڈ کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے دیما پور کے میدانوں تک پہنچا جائے۔ اگر وہ ایک بار وہاں اپنا بیس کیمپ قائم کرلیتے تو وہ چین تک جانے والی اتحادی سپلائی کا راستہ منقطع کردیتے جس کے بعد ان کے لیے برطانوی ہندوستان پر حملہ کرنا بہت آسان ہوجاتا۔ اگر آپریشن U-Go کام یابی سے ہم کنار ہوجاتا تو اس کے بعد پورا انڈیا جاپانیوں کے سامنے ہوتا اور ان کے لیے اس پر قبضہ کرنا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔امفال اور کوہیما پر حملے کی ابتدا 1944 کے موسم بہار میں ہوئی۔ جاپان کی پندرھویں آرمی کی دو ڈویژن فوج نے جس کی قیادت جارح مزاج کمانڈر جنرل Renya Mutaguchi کے ہاتھ میں تھی، اس نے دریائے چنڈون کو عبور کیا اور امفال کی طرف پیش قدمی کی۔ ایک تھرڈ ڈویژن جس کی قیادت لیفٹننٹ جنرل ساتو کے ہاتھ میں تھی، کوہیما کی طرف بڑھنے لگا۔ برطانوی جانتے تھے کہ جاپانی کوہیما کی طرف جارہے ہیں مگر وہ مکمل معلومات حاصل نہ کرسکے، نہ تو وہ ان کی تعداد معلوم کرسکے، اور نہ ہی وہ اس ڈویژن کی رفتار کا اندازہ لگاسکے۔ان کا خیال تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے جاپانی افواج لگ بھگ ناقابل رسائی ان گھنے جنگلات سے کسی بھی صورت نہیں گزر سکیں گی جنہوں نے کوہیما کے اطراف کے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اس لیے جب لیفٹننٹ جنرل ساتو اپنے 15,000 مضبوط اور توانا فوجیوں کے ساتھ اس نباتاتی خطے میں 4 اپریل کو پہنچا تو انہوں نے صرف 1,500 ناتجربہ کار آدمیوں کو اس پہاڑی شہر کی حفاظت کرتے پایا۔ چناں چہ جاپانیوں نے فوری طور پر کوہیما کو محاصرے میں لے لیا اور برطانویوں اور انڈین فوجیوں کو ان کی پوزیشنوں سے بھگانا شروع کردیا۔ وہ بے چارے حواس باختہ وہاں سے نکل کر ایک چھوٹی سی جگہ میں جمع ہونے لگے جو بہ مشکل ایک ٹینس کورٹ کے برابر تھی۔ یہ جگہ ڈپٹی کمشنر کے باغ میں واقع تھی جو مقابل افواج کو ایک دوسرے سے الگ کررہا تھا۔یہ جگہ اتنی قریب تھی کہ فوجیوں نے ایک دوسرے پر گرینیڈ براہ راست ایک دوسرے کی خندقوں میں پھینک دیے تھے اور اس میں انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ گولے اور دوسرا گولا بارود اتنی سی جگہ میں بڑی آزادی سے استعمال ہورہا تھا جس کی وجہ سے ممنوعہ جگہوں پر بھی آگ کی بارش ہ

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website