سردیوں کی ایک شام تھی۔ کافی کا کپ ہاتھ میں لئے میں ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھی۔ یونہی چینل تبدیل کرتے کرتے میں ایک چینل پر رک گئی۔ اس پر سائنس سے متعلق کوئی پروگرام چل رہا تھا۔ مجھے اس میں دلچسپی محسوس ہوئی۔ وہ موجودہ دور اور ٹیکنالوجی کے بارے میں انکشاف کر رہے تھے۔ وہ زمین سے کوسوں دور خلا میں موجود سٹیلائٹ سے زمین کو دکھا رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آسمان سے خود کو دیکھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ وہ اب مریخ پر جانے کا ذکر کرنے لگےتھے۔ انہوں نے بتایا کہ آنے والے دس برس میں ہم مریخ پر انسان کو بھیج سکیں گے۔ مریخ پر انسانوں کی ایک بستی قائم کی جائے گی۔ یہ میرے لئے خوشگوار اور حیرت سے جھومنے کی مانند تھا۔ آسمان کو چھونے کی خواہش، خلاؤں کو مسخر کرنے کا عزم، ستاروں کو چھونے کا حوصلہ، اور سیاروں پر رہنے کا جذبہ۔ انسان نے اپنے تجسس کی بدولت کیسی کیسی اونچائیوں کو چھو لیا ہے۔ چاند پر قدم رکھنے کے بعد اب مریخ پر قدم جمانے کی جستجو تھی لیکن زمین کا برا حال تھا۔
ٹی وی پر مناظر دیکھتے ہوئے یوں لگتا تھا کہ آگے بڑھنے کی خواہش اب سانس لینے کےلیے رکنے تک کی مہلت نہ دے گی اور انسان کی پہنچ میں کائنات کا چپہ چپہ ہو گا۔ میں انہی خیالوں میں گم تھی کہ اچانک کسی نے چینل تبدیل کردیا۔ مجھے لگا جیسے میں آسمان سے زمین پر آگری ہوں۔
آسمان کو چھونے کی خواہش رکھنے والے مجھ جیسے کتنے لوگ ہوں گے لیکن زمین پر انسانوں کے کارناموں کو دیکھ کر ان کی سماعتوں کو بوجھل کرنے لگے۔ زرِ زمین کے وہی روایتی جھگڑے، شور شرابا، لوٹ مار، دھماکے، گولی اور چیختی ہوئی آوازیں، اور ان آوازوں میں ڈوب جانے والی انسانیت مجھے گویا خوابوں کی نگری سے حقیقت کی دنیا میں لے آئی۔ میری سوچ کا محور جیسے آسمان سے زمین پر آگرا۔ میں سوچنے لگی کہ کہنے کو تو ہم انسان ہیں۔ خواہش آسمانوں کو چھونے کی کرتے ہیں لیکن درحقیقت زمین پر رہنے کے آداب سے ناآشنا ہیں۔ کہیں سیاسی جماعتوں کے جھگڑے تو کہیں بین الاقوامی طاقتوں کی زور آزمائی۔ کہیں مضر صحت کھانے اور ملاوٹی چیزیں تو کہیں بڑھتی آلودگی سے ماحول کو درپیش خطرات۔ کبھی عزت کے نام پر قتل تو کہیں طاقت کے حصول کی خاطر غارت گری۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر انسان کی چاہتیں کیا ہیں؟ اگر یہ امن و سکون چاہیے ہیں تو شور کس بات کا؟ اور اگر اسے شور کی تلاش ہے تو امن و سکون کی خواہش کیوں؟ بحیثیت انسان ہماری چاہت کیا ہے؟ کیا ہم خوش نہیں رہنا چاہتے؟ مجھے شکایتیں ہیں، اعتراضات ہیں ہر دوسرے شخص سے، ہر آنے والی صبح اور ہر جاتی ہوئی شام سے، لوگوں کے عقیدوں سے، لوگوں کے رہن سہن سے۔ دیانتداری اور اتفاق ہم میں ناپید ہیں۔ ہر شخص، ہر گروہ اور ہر طبقہ چاہتا ہے کہ اپنی رائے اور اپنی سوچ دوسروں پر مسلط کردے۔
روز بروز انسان مر رہے ہیں اور انہیں مارنے والے بھی انسان ہی ہیں۔ کبھی دہشت گردی تو کبھی مذہبی منافرت، کبھی علاقائی تعصب تو کبھی لسانی تفریق۔ ایسا کونسا بہانہ ہے جو ہم نے ایک دوسرے کو قتل کرنے کےلیے اختیار نہیں کر رکھا؟ ہر جگہ اور ہر چیز میں لڑائی۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمیں دنیا میں اسی مقصد کےلیے بھیجا گیا ہے۔
سیاسی جماعتوں کی طرف آئیں تو یہاں بھی ہر کوئی تو تو میں میں کر رہا ہے۔ ایک دوسرے کو غلط ٹھہرانے کےلیے سازشیں، دھرنے اور ریلیاں۔ کیا ہم صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں؟ عوام سے جھوٹے وعدے، ایسے جو شاید صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود ہوں۔ سوچتی ہوں کہ آخر یہ سب کیا ہورہا ہے اور کیوں ہورہا ہے؟ جس طرف نگاہ کیجیے وہاں کھوٹ ہی ملتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید ہم اپنے آپ تک سے ایمان دار نہیں۔ سازشوں کے اس مایا جال میں نجانے ہم انسان کب تک پھنسے رہیں گے؟ کبھی نکل بھی پائیں گے یا نہیں؟
انسان اپنے اندر الجھا ہوا ہی نظرآتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے خود کو بھی صرف دھوکا ہی دے رہا ہو۔ کیا ہم سب مل کر خوش نہیں رہ سکتے؟ ایک دوسرے کے پیچھے لگے رہنا چاہے وہ سیاسی حوالے سے ہو یا ہماری عام زندگی کے حوالے سے۔ لیکن ہمیں خود کو، ملک کو سنوارنا ہی ہوگا۔
اتفاق و اتحاد ضروری ہے۔ اگر یہ ہر انسان میں موجود ہو تو ہم کیوں ترقی نہیں کرسکتے۔ ہمیں اپنے اندر سے کھوٹ، الجھنوں اور نفرتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہوگا۔ اور جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا، تب تک امن بھی نہیں ہوسکتا۔ میں صرف اور صرف اپنے ملک میں اور اس دنیا میں امن کی طلبگار ہوں۔ ایک ایسا امن کہ کوئی کہیں بھی جائے تو اسے لٹنے کا ڈر نہ ستائے، یہ ڈر نہ ہو کہ اب آگے کیا ہوگا۔
میری التجا ہے کہ سب ایک اتحاد و اتفاق سے رہیں کیونکہ اس کے بغیر ہم یا ہمارا ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ سیاستدان اگر لڑنا ہی چاہتے ہیں تو متحد ہو کر لڑیں، اس وطن کی خاطر لڑیں، سماجی ناہمواریوں اور ناانصافیوں کے خلاف لڑیں۔
کیا یہ بات قابلِ غور نہیں کہ سیاسی جماعتیں جتنا پیسہ اپنے جلسے جلوسوں پر خرچ کرتی ہیں، وہی پیسہ اگر سفید پوشوں تک پہنچادیا جائے تو شاید ان کی زندگی بدل جائے۔ بات صرف سوچ کی ہے، احساس کی ہے، سکہ رائج الوقت سیاست سے باہر نکل کر سوچنے کی ہے۔ کاش کہ ہم ان باتوں پر بھی کچھ غور کرسکیں۔