نئی دہلی (ویب ڈیسک) اپنے ہیر اسٹائل، بڑے کالر والی شرٹوں اور پلکوں کو جھکا کر نگاہوں سے تیر چھوڑنے کی ادا سے انھوں نے پوری دنیا میں مقبولیت حاصل کر لی تھی ۔ راجیش کھنہ کی زندگی کے بارے میں ’دی انٹولڈ سٹوری آف انڈیاز فرسٹ سپر سٹار‘ نامی کتاب لکھنے والے مصنف یاسر عثمان نےایک بنگالی خاتون سے پوچھا کہ راجیش کھنہ ان کے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں۔ یاسر کے بقول اس خاتون نے کہا کہ ’آپ نہیں سمجھیں گے۔ جب ہم ان کی فلم دیکھتے ہیں تو یہ ویسا ہی ہوتا ہے جیسے ہم ان کے ساتھ ملاقات کر رہے ہوں۔ ہم فلم دیکھنے کے لیے میک اپ کر کے، بیوٹی پارلر جا کر اور اچھے کپڑے پہن کر جاتی تھیں۔ ہمیں لگتا تھا وہ پردے پر جب پلکیں جھپکا رہے ہیں یا مسکرا رہے ہیں تو وہ ہمارے ہی لیے کر رہے ہیں۔‘ انھوں نے بتایا کہ ہال میں بیٹھی ہر لڑکی کو ایسا ہی محسوس ہوتا تھا۔ یاسر نے بتایا کہ ’ان کی سفید رنگ کی گاڑی لڑکیوں کی لپسٹک سے لال ہو جاتی تھی اور ان کی گاڑی کی دھول سے لڑکیاں اپنی مانگ بھر لیا کرتی تھیں۔ یہ سنے سنائے نہیں بلکہ سچے واقعات ہیں۔‘ راجیش کھنہ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہمیشہ سے ’لیٹ لطیف‘ اور مغرور شخص تھے۔ جب میں نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا وہ شروع سے ہی ایسے تھے تو پتہ چلا کہ ان کی پہلی فلم ’راز‘ کی شوٹنگ کے پہلے ہی دن انہیں صبح آٹھ بجے بلایا گیا تھا۔ لیکن وہ گیارہ بجے سیٹ پر پہنچے۔سب حیران تھے کہ یہ تو نیا لڑکا ہے، اپنی شوٹنگ کے پہلے ہی دن اتنا لیٹ کیسے ہو سکتا ہے؟ سب انہیں گھور کر دیکھ رہے تھے۔ کچھ سینیئر لوگوں نے انہیں ڈانٹا بھی۔ راجیش کھنا نے کہا کہ ’دیکھیے ایکٹنگ اور کریئر کی ایسی کی تیسی۔ میں کسی بھی چیز کے لیے اپنا لائف سٹائل نہیں بدلوں گا۔‘ اس تیور کے ساتھ دو ہی باتوں کے امکان ہوتے ہیں، یا تو انسان بہت اوپر جاتا ہے یا بہت نیچے۔ ان کا خیال ہے کہ ’لوگ راجیش کھنا میں خود کو دیکھتے تھے۔ ان کی مسکراہٹ لڑکیوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ ان کی آواز تو اچھی تھی ہی، ان کی فلموں کے گانے بھی بہت عمدہ ثابت ہوئے۔‘ یوں تو راجیش کھنہ پر مرنے والی لڑکیوں کی کمی نہیں تھی لیکن ان کی سب سے نزدیکی دوست تھیں اداکارہ انجو مہیندرو۔ یاسر عثمان نے بتایا کہ ’انجو ان کی زندگی میں تب سے تھیں جب وہ فلمیں حاصل کرنے کے لیے مشکلات سے گزر رہے تھے۔ انجو نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ انجو بھی ان دنوں سٹرگل کر رہی تھیں۔ جب وہ سٹار بن گئے تب وہ انجو کے گھر جایا کرتے تھے۔ گھر کے باہر کھڑی گاڑی کو سکول کی لڑکیاں گھیر کر کھڑی ہو جاتی تھیں۔ اور پھر راجیش کھنہ اور انجو کے رشتوں میں دراڑ آ گئی۔وہ بہت بڑے سٹار بن گئے لیکن چاہتے تھے کہ انجو بھی ان کے ساتھ ایک سٹار کی طرح پیش آئیں۔ لیکن انجو کہتی تھیں کہ ’میرے لیے تو وہ وہی پرانے شخص تھے، لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ اس طرح پیش آؤں جس طرح سٹار کے ساتھ پیش آیا جاتا ہے۔ میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔‘راجیش کھنہ کو اپنے ارد گرد تعریف کرنے والوں کی بہت چاہ تھی۔ انجو کو ان کے بارے میں جو بات غلط لگتی تھی وہ ان سے کہہ دیا کرتی تھیں۔ لیکن کامیابی حاصل ہونے کے بعد وہ انجو کو کم وقت دینے لگے۔ یاسر نے بتایا کہ ’چند روز بعد ہی راجیش کھنہ کی زندگی میں ڈمپل کپاڈیا آئیں۔ وہ عمر میں بہت چھوٹی تھیں۔ تین چار دنوں کے اندر انہوں نے ڈمپل سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ انجو کو اس بارے میں بہت بعد میں پتہ چلا۔‘جب راجیش کھنہ کی بارات بمبئی کے باندرا علاقے سے جوہو جا رہی تھی تو انہوں نے بیچ میں ہی راستہ بدل لیا۔ وہ بارات کو انجو کے گھر کے سامنے سے لے گئے۔ شاید راجیش کھنا کی شخصیت میں ہمیشہ سے یہ بات شامل تھی کہ ’میں بتاتا ہوں میں کیا چیز ہوں۔‘ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں ان کی انجو سے دوبارہ دوستی ہو گئی تھی۔‘کہا جاتا ہے کہ راجیش کھنہ اپنی کامیابی کو ٹھیک سے سنبھال نہیں پائے۔یاسر عثمان نے بتایا کہ ’ناکامی سے زیادہ کامیابی نے لوگوں کو برباد کیا ہے۔ کامیابی دہرا نشہ ہے۔ کامیابی کے ساتھ بہت دولت بھی آتی ہے۔ اس کی زیادتی ہوتی ہے تو انسان لڑکھڑا کر گر بھی سکتا ہے۔ کامیابی کو ہضم کرنا مشکل ہوتا ہے۔‘راجیش کھنہ بھی توازن نہیں رکھ پائے۔ وہ کامیابی بڑھنے کے ساتھ ساتھ مغرور ہوتے چلے گئے۔