کسی بھی ناگہانی آفت پر نیک اور پارسا لوگوں سے دعا کرانا مستحب عمل ہے۔اللہ تعالٰی ان کی دعا سے مصائب کو ٹال دیتا اور دور فرمادیتا ہے۔ حضرت موسی بن القاسم ؒ کہتے ہیں کہ ایک بار ہمارے یہاں زلزلہ اور سرخ آندھی آئی تو میں جناب محمد بن مقاتلؒ کے
پاس گیا اور کہا ” اے ابو عبداللہ آپ ہمارے امام ہیں ،اللہ سے دعا مانگئے“ یہ سنناتھا کہ آپ ؒ رونے لگ پڑے اور فرمایا ” اگر میری وجہ سے تم ہلاک نہ ہو تو میں اسی کو غنیمت سمجھوں گا “ حضرت محمد بن القاسم ؒکہتے ہیں ” میں نے پھر خواب میں آنحضرت محمد مصطفٰےﷺ کی زیارت کی اور آپﷺ کو فرماتے سنا کہ محمد بن مقاتل کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے تم پر سے آندھی وغیرہ کو دور کردیا ہے “ حضرت محمد بن مقاتلؒ کا وصال 224 ہجری میں ہواتھا،قرآن وحدیث کے عالم تھے ،علوم ظاہری کے ساتھ علوم باطن کی نعمت سے سرفراز تھے۔ دوسری جانب علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ، اس وقت ہبوط آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی، پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی ، پھر نار خلیل سے، پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے، پھر موسی علیہ السلام کے خروج مصر سے، پھر حضرت داؤد سے ،ان کے فوراً بعد سلیمان علیہ السلام سے پھر حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے۔ اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی، مثلاً قوم احمر نے واقعہ تبایعہ کو، قوم غسان نے سد سکندری کو، اہل صنعاء نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا، علامہ عینی مزید لکھتے ہیں کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدار قومی واقعات وخصائص پر رکھا، اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا، چناں چہ سب سے پہلے اہل عرب نے حرب بسوس ( یہ وہ مشہور جنگ ہے جو بکر بن وائل اور نبی ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے چالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی۔ اس کے بعد جنگ داحس ( جو محض گھڑ دوڑ میں ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی اور ان دونوں جنگوں کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہوالعقد الفرید ج3 ص 74 وابن اثیر 384 پھرجنگ غبراء سے، پھر جنگ ذی قار سے پھر جنگ فجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔