counter easy hit

جنابِ وزیراعظم کب وطن واپس آئیں گے؟

وزیراعظم میاں نواز شریف نے مختلف مقامات پر عام جلسوں سے خطاب اور کئی ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کرنے کے بعد سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں عالمی برادری کو (اپنے دَور میں) پاکستان میں ہونے والی ترقی سے آگاہ کِیا۔ پھر طے شدہ پروگرام کے مطابق علاج کے لئے برطانیہ تشریف لے گئے۔ سرکاری طور پر کہا گیا تھا کہ ”جنابِ وزیراعظم کا نجی دورہ 10دن کا ہوگا لیکن اپنے دورے میں وہ برطانیہ کے اعلیٰ حکام اور مسلم لیگ ن کے عہدیداروں سے بھی ملاقاتیں کریں گے“۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ”جنابِ وزیراعظم کے دورہ¿ برطانیہ کی مدّت بڑھ بھی سکتی ہے“۔ کتنی مدت بڑھے گی؟ نہیں بتایا گیا۔
سوئٹزر لینڈ میں وزیراعظم خاتونِ اول بیگم کلثوم نواز اور دونوں بیٹوں حسین نواز اور حسن نواز کو بھی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ دورہ¿ برطانیہ میں بھی خاندان کے یہ افراد بھی جنابِ وزیراعظم کے ساتھ ہوں گے۔ وزیراعظم صاحب کی بیٹی پاکستان (اسلام آباد) میں رہیں گی۔ 22 مئی 2016ءکو جب وزیراعظم صاحب برطانیہ میں “اوپن ہارٹ سرجری” کے لئے برطانیہ تشریف لے گئے تھے تب بھی مریم نواز خاندان، مسلم لیگ ن کے اور (غیر اعلانیہ طور پر) حکومتی امور انجام دینے کے لئے اسلام آباد میں رہی تھیں۔
وزیراعظم صاحب پاکستان میں ہی تھے جب 19 مئی 2016ءکو قومی اسمبلی کے ارکان نے (متفقہ طور پر) اپنی بلند ترین آوازوں کے ساتھ چند ہی منٹ بعد ارکانِ پارلیمنٹ کی ”تن خوا“ تین گُنا اور الاﺅنسز دس گنا بڑھا لئے تھے۔ اِس سے پہلے 18 مئی کو مظفر آباد میں جلسہ¿ عام سے خطاب کرتے ہُوئے جنابِ عمران خان نے صِرف مولانا فضل اُلرحمن کو چھیڑتے ہُوئے کہا تھا کہ
”رقم بڑھاﺅ نواز شریف، ہم تمہارے ساتھ ہیں!“
وزیراعظم کی برطانیہ روانگی پر ایک نیوز چینل نے بتایا تھا کہ “غیر سرکاری” جنابِ اسحاق ڈار قائمقام وزیراعظم ہیں اور دوسرے نے مریم نواز صاحبہ کا نام لِیا تھا۔ وفاقی حکومت کے لئے نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری کا مسئلہ تھا۔ آئین کے تحت صدرِ مملکت جناب ممنون حسین پاکستان کی مسلح افواج کے سپریم کمانڈر ہیں لیکن جناب اسحاق ڈار ، وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ رضوان اختر ، مُشیر امور خارجہ جناب سرتاج عزیز ، وزیراعظم کے معاونِ خصوصی امورِ خارجہ سیّد طارق فاطمی ، سیکرٹری امورِ خارجہ اعزاز چودھری اور وزیراعظم کے مُشیر برائے قومی سلامتی جناب ناصر جنجوعہ جی ایچ کیو چلے گئے۔ اُن دنوں آرمی چیف جنرل راحیل شریف تھے۔ اجلاس کسی کی صدارت میں نہیں ہُوا تھا۔ اِس پر 9 جون کو میرے کالم کا عنوان تھا “گول میز کانفرنس جی ایچ کیو پر” ۔
جی ایچ کیو کے بجائے قومی بجٹ پر بحث وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کے دفتر میں بھی ہو سکتی تھی لیکن جنرل راحیل شریف کا دبدبہ بہت تھا۔ جب بھی جنرل راحیل شریف وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ ہوتے تو مسلم لیگ ن کے کارکن یہ نعرہ لگاتے کہ ”دونوں شریف بھائی بھائی ہیں“ اور مسلم لیگ ن کی دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادت کے اِس طرح کے بیانات میڈیا کی زینت بنتے کہ ”پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت ایک ہی “Page” پر ہے“۔
میاں نواز شریف پاکستان کے پہلے وزیراعظم ہیں جنہوں نے دِل کا مریض ہونے کے باوجود کسی بیرونی ملک سے 30 مئی 2016ءکو “Video Link” پر پاکستان کی وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے اجلاسوں کی صدارت کی۔ الیکٹرانک میڈیا پر اُن مناظر کو پوری قوم بلکہ دوسری اقوام نے بھی دیکھا۔ اِس سے پہلے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی جناب الطاف حسین اور کینیڈین ”شیخ اُلاسلام“ طاہر اُلقادری اِس سائنسی ایجاد کے ذریعے پاکستان میں اپنے عقیدت مندوں سے خطاب کرتے رہے۔ وزیراعظم نے قومی بجٹ بھی منظور کِیا۔ اِس پر ”شاعرِ سیاست“ نے کہا
”مشہور ہے کہ ہے یہ، شری ڈار کا بجٹ
اور یہ کہ نُون لیگ کی سرکار کا بجٹ
دراصل ہے یہ، لندنی دربار کا بجٹ
مردِ شریف، قائدِ بیمار کا بجٹ“
وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل سے وزیراعظم کے خطاب پر یکم جون 2016ءکو میرے کالم کا عنوان تھا“ جنابِ وزیراعظم کا جھروکا درشن“ مَیں نے لکھا تھا کہ ”ہندوستان کے پُرانے (ہِندو اور مسلمان راجاﺅں/ بادشاہوں) کا جھروکا درشن کا رواج تھا۔ راجا / بادشاہ اپنے محل کے جھروکے برآمدے/ دریچے میں کھڑے ہو کر یا کُرسی پر بیٹھ کر پرجا / رعیت / عوام کی طرف دیکھتے ہُوئے اپنا ایک یا دونوں ہاتھ ہلاتے تھے اور اُس کے درشن (زیارت) کے لئے جھروکے کے نیچے کھڑے لوگ اُس کی ” جے / زندہ باد کے نعرے لگاتے تھے اور جب راجا / بادشاہ بیمار ہوتا تو اُس کے درباری اُسے جھروکے میں کُرسی پر بٹھا کر اُس کے ہاتھ ہلانے کا بندوبست بھی کردیتے تھے“۔
مئی 2016ءمیں اوپن ہارٹ سرجری کا معاملہ تھا لیکن جنوری 2017ءمیں (دِل) کا معاملہ تو ہے یعنی دِل کا معائنہ۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ
”ہم مشرق کے مسکینوں کا، دِل مغرب میں جا اٹکا ہے“
اب معاملہ یہ ہے کہ برطانیہ میں رہتے ہُوئے جنابِ وزیراعظم کا دِل پاکستان میں اٹکا ہوگا۔ جہاں وفاق میں اُن کی اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اُن کے وفا دار بھائی میاں شہباز شریف کی حکومت ہے ۔ میاں نواز شریف کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ”جنرل پرویز مشرف نے کئی بار میرے بھائی شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن میرا بھائی میرا وفادار رہا “۔ جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پانامہ لِیکس کیس کا کیا فیصلہ کرے گا؟ یہ تو جج صاحبان ہی جانتے ہیں لیکن سپریم کورٹ سے باہر ہر سماعت پر مسلم لیگ ن کے وزراءاور جناب عمران اور شیخ رشید احمد بھی اپنی ”عدالتیں“ سجاتے ہیں۔
معزول وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نواب محمد احمد خان کے مقدمہ¿ قتل پر لاہور ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں مقدمہ چلا۔ بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی گئی تو بیگم نصرت بھٹو، محترمہ بے نظیر بھٹو اور پیپلز پارٹی کے کئی لیڈروں نے اُسے ” عدالتی قتل“ قرار دِیا۔ کئی جیالوں نے ” قائدِ عوام“ کی محبت میں خود سوزی کی اور اپنی جانیں قُربان کردِیں لیکن اگر وزیراعظم نواز شریف کو پانامہ لِیکس کیس میں وزارتِ عظمیٰ کے لئے نا اہل قرار دے دِیا گیا یا اُنہیں سزائے قید دی گئی تو مسلم لیگ ن تاش کے پتّوں کی طرح بکھر جائے گی۔ بقول شاعر
”اِس دِل کے ٹکڑے ہزار ہُوئے، کوئی یہاں گِرا کوئی وہاں گِرا“
“ڈان لیکس” اور فوجی عدالتوں کی مُدّت میں توسیع کے معاملے پر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت الگ الگ صفحات پر ہیں۔ سپریم کورٹ یہ ریمارکس دے چُکی ہے کہ ”جناب وزیراعظم کی زندگی کی کتاب کے کچھ صفحات غائب ہیں“۔ ایسی صورت میں جنابِ وزیراعظم وطن واپس کب آئیں گے؟ اُن کے انتظار میں ”بتّی بال کے بنیرے اُتّے“ رکھنے والے ہی جانتے ہوں گے۔ مَیں تو تصّور میں جنابِ زرداری کی جُدائی میں اُن کے چاہنے والوں کا یہ گِیت سُن رہا ہُوں کہ”ڈھول بلوچا! موڑ مہاراں!۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website