پاکستان کا موجودہ بلدیاتی نظام اگست 2001ء میں پرویز مشرف کی حکومت کے دوران عمل میں آیا۔ بلدیاتی نظام کا مقصد حکومت اور عام عوام میں ایک رابطے اور ملک میں ایک اچھا افراسٹرکچر قائم کرنا تھا۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں بلدیاتی نظام لانا ایک اچھا اقدام تھا۔ اس دور میں بلدیاتی نمائندگان کو اختیارات بھی دیئے گئے جو کہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لئے کافی تھی۔
پاکستان کے بلدیاتی حکومت کے نظام میں بلدیاتی نمائندے میئر کے ماتحت کام کرتی ہے اور ایک شہر کو مختلف سیکٹر میں تقسیم کردیا جاتا ہے جنہیں مختلف ڈپٹی میئر کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔ ڈپٹی میئر اپنے سیکٹر کی تمام یونین کونسلز کی نگرانی کرتا ہے اور چیئرمین اور وائس چیئرمین ان کو علاقے کے مسائل سے اگاہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد جنرل کونسلر، چئیرمین اور وائس چیئرمین کو اپنے علاقے کے مسائل سے اگاہ کرتے ہیں۔ اگر کہا جائے کہ جنرل کونسلر ہی ہے جو اپنے علاقے کے مسائل اور ایک ایک شخص سے واقف ہوتا ہے۔ اس لئے بلدیاتی نظام میں جنرل کونسلر کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ وہ کسی بھی غیر متعلقہ افراد کی رہائشگاہوں کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ جو کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بھی معاون ثابت ہو گا۔ معاملات چاہے تھانے کچہری کہ ہوں یا محلے میں ہونے والے جھگڑوں کے، سب جنرل کونسلر ہی حل کرواتا ہے۔اس کے علاوہ گلی محلے کے تمام انتظامات کے لئے حکومتی مشنری کے استعمال کرنے کا مجاز ہے۔
لیکن اج کا بلدیاتی نظام غیر فعال ہے۔ حکومت کی جانب سے بلدیاتی نمائندگان کو دیے جانے والے اختیارات بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس تنازع پر کافی مرتبہ احتجاج بھی کیا جا چکا ہے مگر حکومت نے ان کو زیادہ سنجیدہ نہ لیا۔ میری ملاقات یونین کونسل 167 لاہور کے چند بلدیاتی نمائندوں سے ہوئی، جن کا کہنا یہ تھا کہ بلدیاتی نمائندوں کو صرف اور صرف ایک اختیار دیا گیا اور وہ تصدیق کا ہے۔ جاوید اقبال بھٹی جو کہ یونین کونسل 167 کے ایک جنرل کونسلر ہیں، ان کا کہنا یہ تھا کہ اگر ہمیں پاکستان کو ترقی یافتہ بنانا ہے تو بلدیاتی نظام کو فعال کرنا ہوگا کیونکہ بلدیاتی نظام ہی ہے جو عام عوام کے مسائل حکومتی نمائندگان تک پہنچاتا ہے۔ مزید یہ کہا کہ موجودہ نظام بلکل غیر فعال ہے مگر پھر بھی اختیارات نہ ہونے کے باوجود وہ تمام مسائل کو ایم پی ایز اور ایم این ایز تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کی ان تمام مسائل پر توجہ دلانا بھی عوام کو بنیادی سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔ جب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب شدہ اراکین الیکشن کے بعد اپنے علاقے کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ پھر یہ بلدیاتی نمائندے امید کی کرن نظر اتے ہیں۔ اگر ان کو فعال کر دیا جائے تو ممکن ہے کہ عوام کے سیاستدانوں کے بارے میں غلط تاثر کو ختم کیا جاسکے۔
حکومت بلدیاتی نمائندوں کو اختیار کیوں نہیں دیتی؟ جب یہ سوال میں نے بلدیاتی نمائندوں سے پوچھا تو جواب آیا کہ اگر حکومت نے اختیارات چیئرمینز اور کونسلرز کو دیدے گی تو شاید صوبائی اور قومی اسمبلی کے نمائندگان کے کرپشن کےلئے بجٹ کم پڑجائے۔ یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی بھی زحمت نہیں کی۔