لاہور (انتخاب: شیر سلطان ملک ) آج تھوڑا بینظیر بھٹو کا ذکر ہو جائے، جنھوں نے ایک باراختروقارعظیم سے ایسی فرمائش کردی کہ وہ حیران رہ گئے۔ لکھتے ہیں: ’’کراچی ٹی وی سینٹرجب ایک بارآئیں توناہید خان نے ان سے کہا کہ جی ایم صاحب! آپ سے وزیراعظم کچھ کہنا چاہ رہی ہیں۔ ‘‘ ان کا خیال تھا کہ
نامور صحافی و مضمون نگار محمود الحسن اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ریکارڈنگ کے بارے میں کچھ پوچھ تاچھ کریں گی یا پھر کسی پروگرام پر رائے زنی، لیکن ان کا اندازہ غلط نکلا۔ وزیراعظم بینظیر نے ان سے کہا، ’’ابھی میں نے ٹی وی سینٹرکی طرف آتے ہوئے ویگن کے اڈے پرایک بھٹے والا بیٹھا دیکھا ہے، اس سے دوبھٹے تو منگوا دیں۔ بھٹے آ گئے، اوراس دن وزیراعظم نے چائے کے بجائے ایک بھٹا ہی کھایا۔ چائے وہ بغیر چینی کے پیتی تھیں، کبھی کبھاراس میں ایک چمچہ شہد ڈال لیتی تھیں، جس کا باقاعدہ انتظام کیا جاتا۔ ‘‘ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ بھٹو دور میں بینظیر ’’انکاؤنٹر‘‘ کے نام سے پروگرام بھی کرتی رہیں، جس میں مختلف میدانوں کے نوجوانوں کو مدعوکیا جاتا۔اختروقارعظیم کا بیان ہے کہ وہ پروگرام کے سلسلے میں بڑی محنت کرتیں، ان کی مصروفیات آڑے آگئیں، اوریہ پروگرام چھ قسطوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ضیاء الحق کا دور پی ٹی وی پربڑا بھاری گزرا۔ ملازمین معمولی معمولی باتوں پرمعطل ہوتے۔ ہروقت ان کی جان سولی پر ٹنگی رہتی۔ اختروقارعظیم بھی کشتہ ستم بنے۔ ایک روز دفتر پہنچنے پرمعلوم ہوا کہ وہ معطل ہیں۔ ان دنوں اسپورٹس کا شعبہ دیکھ رہے تھے، اس لیے حیرت ہوئی کہ ان پروگراموں میں قابل اعتراض مواد کی گنجائش کم ہی ہوتی ہے، نہ جانے کیا گناہ سرزد ہو گیا۔ معلوم کیا تویہ جانا: ’’اسی دوران ایک دوست نے ادھرادھرمعلوم کرکے بتایا کہ ایک شام قبل دکھائے جانے والے کشتی کے مقابلے میں ایک پہلوان نے دوسرے کی پٹائی اس حد تک کر دی تھی کہ اس کے چہرے سے خون بہنے لگا، جو صدر صاحب کی صاحبزادی کی طبیعت پرگراں گزرا۔ ان کی شکایت پرمعطلی کا حکم جاری کر دیا۔ ‘‘ ضیاء الحق کی خواہش ہوتی کہ ان کی ہر تقریرکے بعد نیا نغمہ نشر ہو۔