جہاں آرا بیگم نے چنٹ دار فرشی غرارے کو سمیٹتے ہوئے قریب کھڑی مہرالنساء کے کاندھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔
ارے دلہن! مجھے کہاں لے آئی ہو؟ یہاں تو جو موا آ رہا ہے، ایک دوسرے کو ہاتھوں سے عجیب اشارے کر کے ہائے ہائے کر رہا ہے۔ ذرا پوچھو تو سہی انہیں کہاں کہاں درد ہے اور اس درد کی دوا کیا ہے؟
مہرالنسا نے بڑی اماں کے ہاتھ کو سہلاتے ہوئے کہا۔۔
بڑی اماں! یہ ایک دوسرے کو سلام کر کے حال چال پوچھ رہے ہیں۔
ہائے ہائے یہ کیسا انوکھا سلام ہے۔
ہمارے زمانے میں تو بڑے بزرگوں کے سامنے ہاتھوں کی پانچوں انگلیاں جوڑ کر سلیقے سے ماتھے تک لے جانے کے بعد سر کو ذرا خم دے کر آداب کہا جاتا تھا۔ آگے سے جواب ملتا۔۔۔ تسلیم ۔۔
پر یہ کیسا سلام ہے ہائے، ہائے کی آوازیں آ رہی ہیں۔
ارے چھوڑو ان ناہنجاروں کو۔ چلو اب بتاؤ بیٹھنا کہاں ہے؟ بڑی اماں نے پوچھا۔
مہر النساء نے آگے بڑھ کر بڑے چاؤ سے بڑی اماں کا ہاتھ تھاما اور ایک کونے میں پڑے ہوئے بید کے کائوچ کی طرف اشارہ کیا۔
سرخ و سپید رنگ، تیکھے نقوش، سیاہ آنکھیں، کشادہ پیشانی، سیلقے سے بنے سنورے بال،
کانوں میں زمرد لگے جھمکے، بانہوں میں جڑاؤ کنگن، سرخ اور سفید موتیوں سے مرصع جسم سے لگا نفیس گلو بند بڑی اماں کے حس جمالیات کے گن گا رہا تھا۔
بڑی اماں نے اپنے غرارے کے پھیلاؤ کو بڑے قرینے سے درست کیا اور قریب رکھے ایک کائوچ پر بڑی شان بے نیازی سے براجمان ہو گئیں۔
بڑی اماں کے چہرے پر ابھرنے والے تاثرات کو بھانپتے ہوئے مہر النساء نے کہا، بڑی اماں یہاں بوفے ہے، کھڑے ہو کر کھانا پڑے گا۔
کیا کہا؟ بڑی اماں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا، یہ کہاں کا سلیقہ ہے؟
ہمارے زمانے میں خادمائیں چاندی کی چمکتی دمکتی سلفچیاں اٹھائے آتیں، قیمتی ایرانی غالیچوں پر بچھی سفید براق چاندنیوں پر گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے بیگمات کے ہاتھ دھلواتیں، پھر دستر خوان لگتا، انواع اقسام کے کھانے چنے جاتے۔ ہر طرف سے یہ لیجئے، یہ لیجئے کی آوازیں آتیں۔
بڑی اماں نے مہرالنساء کے ہاتھوں کو ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا،
مہر النساء جلد کرو۔ یہاں تو عجب یک طرف تماشہ ہے۔ ہاتھوں میں مسلے جانےوالے، چھوٹے چھوٹے کاغذ بھلا یہ کون سی تہذیب ہے۔
بڑی اماں اسے زمانہ جدید کہتے ہیں۔
بڑی اماں نے کہا۔ ہائے ہائے تف ہے زمانے کی اس جدت پر۔ اپنی تہذیب کا ہی جنازہ نکال دیا۔