دنیا میں کہیں بھی خواب دیکھنے پر پابندی نہیں پاکستان میں بھی نہیں۔میں نے خواب دیکھا کہ’ میں سڑک پر پیدل چلا جا رہا ہوں۔ ایک جگہ مجھے ایک پرانی طرز کا چراغ پڑا مِلا۔ میں نے اُسے اٹھا لیا۔اچانک ایک طویل قامت اور خوبصورت نوجوان زرق برق لباس پہنے اور چہرے پر ایک دِلکش مسکراہٹ سجائے مجھے جھک کر سلام کرتے ہوئے بولا ’’کیا حکم ہے میرے آقا !۔ میں اِس چراغ کا جِنّ ہوں ۔ یہ چراغ پرانے زمانے میں الہٰ دین کے پاس ہوتا تھا ۔ اب آپ اِس کے مالک ہیں جو حُکم دیں گے مَیں بجا لائوں گا ۔ مَیں نے کہا مسٹر جن تُم تو بہت خُوبصورت اور خُوش لباس ہو مَیں سمجھا تھا کہ میرے سامنے کوئی مرکزی یا صوبائی وزیر کھڑا ہے ۔
جِن نے ایک خُوبصورت مسکراہٹ اپنے چہرے پر بکھیر دی اور کہا کہ ’’ ہمارے حُکمرانوں نے جِن برادری کو بُھوک سے نجات دِلا دی ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے بھی ایسی ادویات ایجاد کر لی ہیں کہ کوئی جِن بوڑھا ہی نہیں ہوتااور نہ ہی اپنے حُکمرانوں سے روٹی، کپڑا اور مکان مانگتا ہے ‘‘۔تم میرے لئے کیا کر سکتے ہو ، میں نے اُس سے پوچھا تو اُس نے جواب دِیا کہ ’’ سوائے اِس کے کہ مَیں آپ کے لئے چوری چکاری اور ڈاکہ زنی کروں ، ہر کام کرسکتا ہُوں ۔ کیونکہ یہ کام اشرف اُلمخلوقات یعنی آپ جیسے اِنسان کرتے ہیں ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ پیارے جِنّ میرے وطن میں جِسے قائدِاعظم نے بڑی جدوجہد سے حاصل کِیا تھا ہماری قوم دو طبقوں میں بٹّی ہوئی ہے ۔ ایک حکومت کرنے والا طبقہ اور دوسرا وہ جِس پر حکومت کی جائے ۔ جِنّ نے کہا ۔ ’’ میرے آقا آپ میرے مُلک میں چلیں ۔ مَیں آپ کوگرِین کارڈ دِلوا دوں گا لیکن اُس کے بعد آپ اپنے وطن واپس نہیں آ سکیں گے ‘‘ ۔ مَیں نے کہا کہ ’’ مُجھے اپنے وطن سے بہت مُحبت ہے۔ مَیں تو اپنے وطن میں ہی جِینا اور مرتا چاہتا ہُوں‘‘۔
جِن ّ نے کہا تو میری بلا سے ۔ ’’ آپ یہاں جئیں یا مریںمجھے اِس سے کیا ؟ لیکن مَیں چاہتا ہُوں کہ مَیں آپ کی غُلامی سے نجات پانے کے لئے آپ کے کسی نہ کسی حُکم کی تعمیل کر دُوں۔ آپ میرے کندھے پر سوار ہو جائیں ۔ آپ جہاں بھی جانا چاہیں گے میں آپ کو وہاں لے جائوں گا ۔ اِس سے زیادہ مَیں اور کوئی خدمت نہیں کرسکتا آپ کی ۔مَیں نے کہا ’’ اے میرے پیارے جِنّ فی الحال مُجھے مصّور پاکستان علاّمہ محمد اقبال کے مِزار پر لے چل ۔ بہت دِن ہُوئے مَیں نے اُن کے مزار پر جا کے اُن سے گفتگو نہیں کی۔ مَیں نے پوچھا ’’ اے میرے خُوبصورت دوست جِنّ جب تُم مجھے اپنے کندھوں پر سوار کر کے علاّمہ اقبال کے مزار پر لے جائو گے تو کوئی دہشت گرد تُم پر اور مجھ پر حملہ تو نہیں کر دے گا‘‘۔ جِنّ نے کہا ’’اے میرے آقا جب آپ میرے کندھوں پر سوار ہوں گے تو کوئی خُود کُش حملہ آور یا اُس کا سہولت کار مجھے اور آپ کو نہیں دیکھ سکے گا ‘‘۔ مَیں یہ ذمہ داری لیتا ہُوں لیکن جب آپ میرے کندھوں سے اُتر جائیں گے تو آپ کی جان بچانا آپ کی حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔
مَیں جِنّ پر بھروسہ کر کے اُس کے کندھوں پر سوار ہوگیا اور پلک جھپکتے میں وہ مجھے علاّمہ اقبال کے مزار پر لے آیا۔ میں نے فاتحہ پڑھی اور کہا ’’اے مصّور پاکستان!آپ نے قیام پاکستان کا خواب دیکھا اور اس خواب کے شرمندہ تعبیر ہونے سے پہلے ہی آپ خُلد آشیانی ہو گئے ،اب پاکستانی قوم کے لئے کوئی نیا پیغام ہے آپ کے پاس؟۔آواز آئی ’’میں نے محض برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا خواب ہی نہیں دیکھا تھا بلکہ یہ بھی تجویز دی تھی کہ ؎
’’ ایک ہوں مُسلم ، حرم کی پاسبانی کے لئے
نِیل کے ساحل سے لے کر ، تابہ خاک کا شغر‘‘
…O…
پھرآواز آئی ’’تم سب لوگ نہ جانے رسم فاتحہ خوانی نباہنے کے لئے کیوں میرے پاس چلے آتے ہو؟او آئی سی کے پاس جاؤ ،جو نشِستند ،گُفتند و برخاستند کے سوا کچھ نہیں کر تی ،مجھے علم ہے کہ پاکستان سمیت زیادہ تر مسلمان ملکوں کے حکمران قومی دولت لوٹ کر بیرونی ملکوں میں جمع کرا دیتے ہیں ، وہاں وہ اور اُن کی اولاد جائیدادیں بنا لیتی ہے۔ خُود عیش کرتے ہیں اور عوام کو بھوکوں مارتے ہیں میں نے تو یہ بھی کہا تھاکہ ؎
’’سُلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نَقش کُہن تُم کو نظر آئے مِٹا دو‘‘
…O…
’’جس کھیت سے دہقاںکو مُیسّر نہ ہو روزی
اُس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو‘‘
…O…
پھر آواز آئی ۔ بہتر ہے کہ تُم قائداعظم کے مزار پر جاؤ اور اُن سے پوچھو کہ ُانہوں نے اپنی جیب کے کھوٹے سکّوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کیوں کیا؟۔میں پھر جِنّ کے کندھوں پر سوار ہُوا اور اُسے کراچی کے لئے پرواز کرنے کا حکم دیا ۔مزار ِقائد پر حاضر ہو گیا۔فاتحہ خوانی کے لئے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ آواز آئی ’’فاتحہ خوانی کا تکلّف رہنے دو ۔تم جیسے لوگوں اور تمہارے حکمرانوں کو محض اُن کرنسی نوٹوں سے دلچسپی ہے جِس پر میری تصویر چھپی ہوتی ہے یا امریکہ اور برطانیہ کے سابق صدور ، بادشاہوں اور ملکائوں کی تصاویر۔تم سب نے تحریکِ پاکستان میں حصہّ لینے والو ں کی جانی اور مالی قربانیوں اور میری تعلیمات کو بھلا دیا ہے ۔تم لوگوں نے میرے پاکستان کے دو ٹکڑے کر دئیے اور جاگیرداروں،سرمایہ داروں اور مولویوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے جن کے بزرگوں نے میرے اور علامہ اقبالؒکے خلاف کُفر کے فتوے دئیے تھے ۔تم لوگوں نے میرے پاکستان میں چور بازاری ‘ذخیرہ اندوزی‘سمگلنگ کرنے والوں اور قبضہ گروپوں کو کُھلی چھٹی دے رکھی ہے ۔محض دکھاوے کے لئے میرے مزار پر آتے ہو۔تصویریں کھنچواتے ہو ۔فاتحہ پڑھنے کے بہانے منہ میں نہ جانے کیا بڑبڑاتے ہو ۔تم لوگوں کو تو صحیح طور پر سورہ فاتحہ بھی پڑھنا نہیں آتی اور نہ ہی اس کا مطلب ؟۔
آپ درست فرما رہے ہیں ‘بابائے قوم !میں نے عرض کیا ۔آپ ہمارے محسن ہیں آپ نے ہمیں برطانیہ سے آزادی لے کر دی اور ہندو بنیوں کی لُوٹ کھسوٹ سے نجات دلائی لیکن ہمارے حکمرانوں نے ہمیں امریکہ کی غلامی میں دے دیا اور اب ہمیں حاجی اور نمازی مسلمان بنئے ہمیں لُوٹ رہے ہیں ۔اب ہم کیا کریں ؟۔آواز آئی ۔میں نے تم لوگوں کے لئے جو کرنا تھا کر دیا اب تم اپنے لئے کوئی دوسرا قائداعظم تلاش کر لو ۔اب جاؤ یہاں سے ‘‘میں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔جِنّ میری اس حالت سے لُطف اندوز ہو رہا تھا۔میں اس کے کندھوں پر سوار ہوا اور اسے حُکم دیا کہ وہ مجھے اسی سڑک پر چھوڑ دے جہاں اس سے میری ملاقات ہوئی تھی۔جِنّ مجھے وہیں پر لے آیا ۔اور بولا اب کیا حُکم ہے میرے آقا !
میں نے کہا ، اے نیک دل جِنّ !کیا تم میری قوم کے لئے کوئی دوسرا قائداعظم لا سکتے ہو ؟در فِٹّے منہ !۔ جِنّ غصے سے بولا ۔’’تم لوگ امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں سے مانگ کر کھانے والے لوگ ۔ اپنے لئے دوسرا قائداعظم بھی تلاش نہیں کر سکتے !‘‘ یہ کہہ کر جِنّ نے طلِسمی چراغ مجھ سے چھِین لیا اور غائب ہو گیا ۔پھر میری آنکھ کھُل گئی ۔اب مَیں اُس وقت سے سوچ رہا ہُوں کہ مَیں اپنے لئے اور اپنے وطن کے لئے نیا قائداعظمؒ کہاں تلاش کروں؟